وزیر اعظم عمران خان نے ملکی کرکٹ میں اصلاحات کی غرض کرتے سے رمیز راجہ کو پی سی بی گورننگ میں نامزد کیا۔ انتخابات کے بعد اب وہ چیئرمین کرکٹ بورڈ بن چکے ہیں۔ اسے وزیراعظم عمران خان کا بہترین فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ تبدیلی بہت پہلے ہونی چاہیے تھی میں ذاتی طور پر احسان مانی کیخلاف نہیں تھا مگر جتنا بڑا عہدہ انہیں دیاگیا اس سے اختلاف تھا۔ احسان مانی کو کامیاب کاروباری شخصیت تو کہا جا سکتا ہے لیکن وہ ایک ناکام منتظم ثابت ہوئے۔ میرے آخری تبصرے کے جواب میں سینکڑوں فون کالز موصول ہوئیں اور لاتعداد پیغامات بھی آئے لیکن اب میں کہتا ہوں کہ احسان مانی نے اگر ہماری کرکٹ کا بیڑہ غرق کیا تھا تو رمیز راجہ نے پہلی پریس کانفرنس میں احسان مانی کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ احسان مانی میرے ساتھ پنجاب بورڈ کی ٹیم میں کھیلتے رہے ہیں وہ ایک مناسب میڈیم فاسٹ باؤلر تھے۔ جہاں تک مجھے یادہے انہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کھیلی۔ رمیز راجہ اور احسان مانی کا بحیثیت کرکٹر مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ رمیز راجہ اس عہدے کے اہل ہیں۔ انہیں بہت پہلے بی سی سی پی کا چیئر مین بننا چاہیے تھا کیونکہ کرکٹ میں کونسا ایسا ڈیپارٹمنٹ ہے جو رمیز کی پہنچ سے باہر ہو۔ وہ پاکستانی کرکٹ کی باریکیوں سے پوری طرح واقف ہیں۔ پڑھے لکھے ہوش مند کمنٹیٹر اور جرآت والے انسان ہیں اور اس عہدے کے نہ صرف اہل تھے بلکہ پاکستانی کرکٹ کو بام عروج تک پہنچانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ کئی لوگ کرکٹ بورڈ کے عہدوں کو رعب دبدبے اور پیسے کیلئے قبول کرتے ہیں مگر رمیز نے یہ عہدہ پاکستانی کرکٹ کی بہتری اور کرکٹ میں پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے قبول کیا ہے۔ دعا ہے کہ وہ اپنی اس کوشش اور خواہش میں کامیاب ہوں اور میری رمیز سے درخواست ہے کہ وہ پاکستانی کی پرانی کرکٹ کو زندہ کریں۔ سکول کالج اور کلبوں سے دوبارہ شروع کریں تاکہ چھپا ٹیلنٹ پوری قوم کے سامنے آئے۔ 1960 سے 1970 والا ڈھانچہ تشکیل دیا جائے تاکہ کلب آباد ہوں ‘کالجوں‘ سکولوں میں داخلے پھر سے سپورٹس بیسز پر ملیں اور نئی پود آوارگی کی بجائے کلبوں کو جوائن کرے۔