حال ہی میں اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خٹک کا ایک انتہائی دلچسپ اور خرد امروز انٹرویو مذکورہ بالا موضوع پر نظر سے گزرا ، نہ صرف موضوع ہی اپنے نیا پن کی وجہ سے پرکشش تھا بلکہ اس نے کئی نئی نئی سوچوں کے در کھول دئیے۔
ایک عرصے سے پوری منصوبہ بندیوں کے ساتھ کرہ ارض کو گلوبل ویلیج گلوبل ولیج سے دنیا کو پکارا جا رہا ہے۔ End of History نام کی کتابوں کو پھیلایا جا رہا ہے۔ Clash of Civilization کے تصور کو دنیاوی اذہان میں ٹھونسنے کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں…جب سے افغانستان میں روسی ایمپائر کا جنازہ نکلا اور امریکہ Lose super Power ہونے کا سنہری موقع ملا تو مکمل منصوبہ بندیوں کے ساتھ امریکہ جسے یہ اعزاز اسلامی مجاہدین کی قربانیوں سے نصیب ہوا انہی کو دبانے کیلئے Fundamentalism کے پوشیدہ نام سے بجائے اسلام کو براہِ راست اپنے تخریبی عمل کا ٹارگٹ بنانے اور سامنے لانیکے لیے Fundamentalism کے پردے میں نشانہ بنایا گیا اور پھر بڑی عیارانہ حکمت سے اسے Terrorism میں تبدیل کیا گیا اور آخر میں 9/11 کے خودساختہ واقعہ سے پوری اسلامی دنیا کے خلاف کروسیڈ جدید کا آغاز کر دیا گیا۔ یہ سارے مرحلے زبردست ابلیسانہ منصوبہ بندی سے عمل میں لائے گئے اور اس سارے عمل کے درمیان عالمی ذہن میں مستقل طور پر اپنی فکری حاکمیت ٹھونسنے کیلئے New order کی داغ بیل ڈالی گئی ایسے لٹریچر سے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ دنیا میں صدیوں کا تہذیبی ارتقاء اپنا حتمی نقطۂ عروج حالیہ امریکی تہذیب میں حاصل کر چکا ہے اور دنیا کے لیے اب یہ New order قبول کئے بغیر کوئی اور چارہ کار نہیں چنانچہ اس زور دار منصوبہ بندیوں کے زبردست عمل کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں اپنی شکلیں بدل رہی ہیں اور چھوٹی چھوٹی علاقائی تہذیبیں (ثقافتیں) معدوم ہو رہی ہیں۔
اس اہم ترین عالمی تناظر میں تقافتوں کی توڑ پھوڑ کے منظر نامہ کے پس منظر میں اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خٹک نے پہلی دفعہ پاکستان میں پاکستان کی سطح پر پاکستان کی چھوٹی چھوٹی علاقائی ثفافتوں اور زبانوں کو بچانے کے لیے ایک کامیاب عمل کا آغاز کیا ہے اگر موجودہ حکومت خاص طور پر وزارت تعلیم بنیادی بصیرتوں کے رُخ باخبری کا ثبوت دے تو اس زبردست اہمیت کے حامل منصوبہ کی باقاعدہ سرپرستی کر سکتی ہے اس کا لازمی طور پر فائدہ پاکستانی تہذیب و ثقافت اور اردو کے علاوہ چار صوبائی زبانوں (کشمیری زبان سمیت) کی نشوونما میں زبردست فائدہ پاکستانی تہذیب و ثقافت جو اس وقت خطرناک توڑ پھوڑ کے عمل سے گزر رہی ہے اور قومی زبانیں اپنا قومی مقام تیزی سے کھو رہی ہیں یہ سب تخریباتی عمل رُک جائیں گے صرف دور دراز بصیرت عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر یوسف خٹک نے مذکورہ انٹرویو میں یہ تشویشناک انکشاف کیا اس وقت پوری د نیا میں لگ بھگ ، ساڑھے چھ ہزار کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ جیسے ہی اکیسویں صدی اپنے اختتام کو پہنچے گی اور نسل انسانی اگلی صدی میں قدم رکھے گی تو آدھی زبانیں یعنی تین ہزار زبانیں ختم ہو جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ زبانیں ختم کیوں ہو رہی ہیں اور ان زبانوں کو محفوظ کیسے رکھا جائے۔ ڈاکٹر خٹک نے بتایا کہ جو زبان لوگوں کے ذریعہ معاش سے نہیں جڑی ہوتی اس زبان نے کمزور ہونا ہے۔ ایک زبان جس سے روزگار جڑا ہو وہ ہجرت کر کے کسی دوسرے شہر آ جاتا ہے تو وہ وہاں اس شہر کی زبان بولنے لگتا ہے تو پہلی زبان خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔
ڈاکٹر خٹک نے اس تناظر میں یہ انکشاف کیا اس وقت پاکستان میں ستائیس زبانیں ایسی ہیں جو معدوم ہو رہی ہیں ان میں سے بارہ زبانیں ایسی ہیں جن کو معدومیت کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ ڈینجر زون میں وہ زبانیں قرار دی جا سکتی ہیں جن کو سمجھنے اور بولنے والے افراد کی تعداد پانچ سو سے کم ہو۔
جہاں تک ادامی ادبیات کی کارکردگی کا تعلق ہے ڈاکٹر خٹک کے بیان کے مطابق جو معدوم ہونے والی زبانیں ہیں اکادمی نے ان سے متعلق سارا کام مکمل کر لیا ہے اور یہ کام جلد شائع بھی ہو جائے گا۔ یہ کام طائرانہ نظر ہے اس پر تفصیل سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم پاکستانی زبانوں کا ادبی میوزیم بنانے والے ہیں۔ پہلے یہ قوم شناخت کر لے کہ زبانیں ہمارا اثاثہ ہیں۔ ہم اسی عمارت کے اندر یہ میوزیم بنا رہے ہیں اور تمام زبانوں کے متعلق معلمات یہاں موجود ہوں گی مثلاً کوئی ایک زبان کہاں بولی جاتی ہے اس کا ادب کیسا ہے وہ کس خطے کی زبان ہے اس کی ثقافت کیسی ہے وغیرہ ہرزبان کی تاریخ بیان کی جائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسی زبانیں جو معدوم ہو رہی ہیں ان کا لوک ادب ، داستانیں ، لطیفے ، روایات وغیرہ محفوظ کر رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں زبانوں کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔ ہر زبان کی کم از کم ایک کتاب شائع کریں گے۔ہم اس کیلئے فیلڈ ورک میں جا سکیں گے اور سب سے اہم یہ کہ جہاں یہ زبان بولی جاتی ہے نصاب میں شامل کروائیں گے۔ ہمارے پاس جو بھی چیزیں (مواد) جمع ہونگی، ایک آدھ نظم یا نثر کے ٹکڑے کو کلاس اول کے نصاب میں شامل کروائیں گے اور یوں اس عمل کو پانچویں کلاس تک لے جائیں گے۔آخر میں ڈاکٹر خٹک نے زبانوں کو کیسے معدوم ہونے سے روکا جائے سے متعلقہ جو تجویز دی اور جو نیچے بیان کی جانی ہے وہ صرف زبانوں اور ثقافتوں تک ہی محدود نہیں رہ جاتی۔ اس کے اندر سے ایک ایسا عظیم نظام ابھرتا ہے جس پیروی میں چین آج افیون زدہ ملک کی غربت و غلامی کی ایک المناک تاریخ سے ابھر کر دنیاکی عظیم تر معیشت میں تبدیل ہوا ہے۔اس پر مفصل گفتگو بعد میں ہوگی۔ پہلے ڈاکٹر خٹک کی معجزہ پرور تجویز پر ایک نظر ڈالی جاتی ہے۔ ڈاکٹر خٹک تجویز کرتے ہیں کہ زبان اور ثقافت کو بچانے کیلئے ہجرت کو روکنا لازمی ہے۔
’’لوگ ہجرت کرنا اس وقت چھوڑیں گے جب ان کو اپنے علاقے میں روزگار کے مواقع نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ روزگار کیلئے ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہوگا۔ انڈسٹری لگانا ہوگی۔ زراعت میں امکان کو دیکھنا ہوگا۔ جب کوئی زبان معدوم ہوتی ہے تو محض زبان نہیں ہوتی اس کے پیچھے پورا اثاثہ مر جاتا ہے۔ اثاثہ میں آپ کا علم طب مر جاتا ہے۔ علم طب سے جڑی بوٹیوں کے نام مٹ جاتے ہیں۔(پورا دیسی ہسپتال) اس زبان سے جڑے تمام علوم و فنون مٹ جاتے ہیں۔ اس سے جڑی پوری ثقافت مٹ جاتی ہے۔
…………………… (جاری)