عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ
eishapirzadah1@hotmail.com
طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد سے خواتین کے حجاب سے متعلق ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ جبکہ کابل میں اب تک خواتین کے کئی مظاہرے ہوچکے ہیں جن پر طالبان کے تشدد کی اطلاعات بھی موصول ہوئیں تاہم یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خواتین نے طالبان کے حق میں ریلی نکالی ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق بھاری تعداد میں برقع پوش خواتین نے شہید ربانی یونیورسٹی کے کلچرل ڈیپارٹمنٹ میں لیکچر سنا اور بعد ازاں یونیورسٹی سے مرکزی شاہراہ تک طالبان حکومت کے حق میں ریلی نکالی۔
ریلی کی شرکاء نے پلے کارڈز اور بینرز اْٹھا رکھے تھے جس میں درج تھا کہ ’’ ہم برقع میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں‘‘ ’’اسلام خواتین کی حفاظت اور حقوق کی ضمانت دیتا ہے‘‘ اور ’’ ہم طالبان کی حکومت کا خیر مقدم کرتے ہیں‘‘۔برقع پوش خواتین نے طالبان حکومت کے حق میں نعرے بازی بھی کی جب کہ چند خواتین نے ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبات اگر تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں سر تا پاؤں برقع پہننا چاہیے۔
طالبان کے سفید پرچم تھامے برقع پوش طالبات نے کہا کہ یہ مارچ ایسی بے پردہ خواتین کے خلاف ہے جو کابل کی سڑکوں پر احتجاج میں خود کو افغان خواتین کی نمائندہ قرار دے رہی ہیں۔
طالبان کے مسلح اہلکاروں نے یونیورسٹی سے لیکر مرکزی شاہرہ تک اور مارچ کے اختتام تک ریلی کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جب کہ کچھ طالبان ریلی کی تصاویر بھی لیتے رہے اور ویڈیو بھی بنائی تاکہ عالمی میڈیا کو فراہم کی جاسکیں۔
یہاں یہ بات واضح ہے کہ جہاں طالبان حکومت کی طرز حکومت سے کئی افغان شہری نالاں ہیں وہیں ان کو فالو کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے ۔ طالبان حکومت کے حق نکلنے والے اس مظاہرے میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان کی تمام خواتین پردہ نہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ ایک بڑی تعداد پردے میں خود کو محفوظ محسوس کرتی ہے۔ لیکن دنیا نے اس مظاہرے میں کچھ اور بھی نوٹ کیا ہے۔
ان نقاب پوش خواتین کی تصاویر نے ملک میں افغان طالبان کی حکومت میں خواتین کی حیثیت اور اہمیت کے علاوہ اس بات پر بھی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اس قسم کا لباس جس میں عورت کی آنکھیں تک دکھائی نہ دیں کیا افغانستان کی ثقافت کا حصہ ہے؟
سوشل میڈیا پر چند افغان اور پاکستانی صارفین اس برقعے کو ’سعودیہ سے منسوب’ تحفہ‘ یا ’عربنائزیشن‘ قرار دے رہے ہیں اور اْن کا کہنا ہے کہ ’سیاہ برقع ہمارے جیسے معاشروں کو سعودی عرب کی طرف سے ملنے والے سخت گیر نظریات کا حصہ ہے۔‘چند خواتین صارفین کا کہنا ہے کہ یہ ’سعودی فیشن‘ ہے کیونکہ افغان خواتین یا تونیلے ٹوپی والے برقعے پہنتی ہیں یا سفید برقع یا چادر یا سکارف لیتی ہیں۔
سوشل میڈیا صارفین کایہ کہنا درست ہے کیونکہ افغان کلچر میں نیلے رنگ کے ٹوپی برقعے کا تصور پایا جاتا ہے۔ طالبان کے پہلے دور حکومت میں بھی ہم نے خواتین کو نیلے ٹوپی برقع میں ملبوس پایا لیکن اس بارطالبان کی حکومت میں یہ ایک بدلائو ہے جو کہ انتہائی سختی کی علامت ہے۔ کیا اسلام میں پردے کا تصور اس قدر سخت ہے کہ عورت کو اس کی آنکھیں تک چھپانے کا حکم ہے؟
افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد خواتین کے پردے سے متعلق ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اس بات پر سوال اٹھ رہے ہیں نظر کے پردے کا تصور ایک برقع ہی کیوں ہے؟ وہ سکارف یا چادر کیوں نہیں ہو سکتا؟۔ آج جو ہم عبایہ زیب تن کرتے ہیں در اصل وہ ظہور اسلام سے قبل اور بعد میں عرب کی خواتین کا رواج تھا۔ پردے سے متعلق سب سے پہلے سورۃالنور (آیت13) میں ارشادِ الٰہی ہے:اور اے پیغمبرؐ مسلمان عورتوں سے کہہ دوکہ اپنی نگاہ نیچی کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہوجا ئے اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنے سینوں پر آنچل (دوپٹے) کا پلو ڈالے رہیں۔
چنانچہ جہاں جہاں بھی پردے کا حکم آیا ہے وہاں چادرکا ذکر ملتا ہے نہ کہ’’ عبایا‘‘ کا۔
حال ہی میں گیلپ پاکستان کے سروے کے مطابق 55 فیصد پاکستانیوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا ہے،۔ سروے کے مطابق 25 فیصد شہریوں نے خوش نہ ہونے کا کہا جبکہ 20 فیصد نے کوئی رائے دینے سے انکار کیا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ ہماری آبادی کا نصف حصہ طالبان کا حمایتی ہے۔ لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اتنا سخت پردہ کرنے پر زور نہیں دیا جاتا۔
اسلام میں مرد کو بھی نگاہوں کا پردہ کرنے کا حکم ہے، کہ وہ نگاہیں نیچی کر کے چلیں لیکن کیا آج تک کسی نے عورت کے پردے کی بحث سے نکل کر مردوں کی اٹھتی نگاہوں کی طرف توجہ فرمائی ہے؟
والدین اور ریاست لڑکیوں کو شرم و حیا کا درس دیتے دیتے لڑکوں کی اخلاقی تربیت پر توجہ دینا بھول گئے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج باپردہ بنت حوا بھی مردوں کی حوس کا شکار بن رہی ہے۔ لڑکیاں اس خوف سے عبایا پہننے لگ گئی ہیں کہ شائد ابن آدم کو کچھ حیا آجائے ۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق امن شریعت کے قانون میں موجود سزائوں سے ہی آ سکتا ہے،تو یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ شریعت میں کہاں یہ بتایا گیا ہے کہ بے پردہ خاتون کو کیا سزا دینی ہے؟
جہاں افغان سیاست دان فوزیہ کوفی کو محض ناخن پالش لگانے پر طالبان کی جانب سے سنگسار کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ بھلے جتنے بھی سبز باغ دکھائے جائیں کہ اس بار طالبان بدل گئے ہیں لیکن ٹھہراؤ اور تسلسل کے بعد ہے کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے گا۔ ہمارے مذہب اسلام میں ہر چیز کا حل زور زبردستی نہیں۔ اصلاح و تبلیغ سے بھی آپ لوگوں کو اپنی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ عورتوں کو ایسے برقع پہنا کر دنیا کو یہ بآور کرانا کہ اب افغان سر زمین میں پردے کا یہ تصور ہے جس میں ان کی آنکھیں بھی نہ نظر آئیں درست طریقہ نہیں۔ یہ ٹرینڈ تو اس نیلے ٹوپی والے برقع سے بھی سخت ہے کہ جس میں کم از کم آنکھوں کے آگے جالی تو لگی ہوتی تھی۔ لہذا مظاہرے میں اٹھائے وہ پلے کارڈز جن پر لکھا تھا کہ ’’ہم برقع میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں‘‘ ’’اسلام خواتین کی حفاظت اور حقوق کی ضمانت دیتا ہے‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے طالبان حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے حجاب سے متعلق کوئی زور زبردستی نہ کرے ، بلکہ یہ فیصلہ وہاں کی خواتین پر چھوڑ دیں کہ وہ حجاب کیسے لینا چاہتی ہیں اور طالبان حکومت بس یہ یاد رکھے کہ’’اسلام خواتین کی حفاظت اوران کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے‘‘ ۔