اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار) امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے زمین پر موجود اداروں کے لیے ابتدائی طور پر 50 ملین ڈالرز کی امداد دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ مدد کرنے کے دیگر طریقے بھی ڈھونڈیں گے۔ پاکستان اور امریکہ کے 75سالہ تعلقات کے عنوان سے ایریا سٹڈی سنٹر فار افریقہ نارتھ اینڈ سائوتھ امریکہ، قائد اعظم یونیورسٹی اور امریکی سفارتحانے کے تعاون سے 16ویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی نے پاکستان اور امریکہ کے 75 سالہ تعلقات کی تکمیل پر دو روزہ سیمینار کے انعقاد کو سراہا۔ ڈائریکٹر ساؤتھ ایشیا امان سینٹر، الزبتھ ٹھرلکیلڈ نے کہا کہ 1947 میں پاکستان برطانوی ہندوستان سے ابھرا، پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس کی خطے میں ڈیٹرنس ہے، مکہ پر امریکی حملے کی افواہ پر پاکستان میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کیا گیا، پاک امریکہ تعلقات میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ ہم مختلف معاملات پر مذاکرات کر کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ امریکن سٹڈی پر 16 کانفرنس کا انعقاد قابل ستائش ہے جو دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔ دونوں ممالک کے سکیورٹی اداروں کے درمیان تعلقات بھی کافی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ سے دنیا میں سب سے زیادہ سکالر شپس پاکستانی طلبا نے حاصل کی ہیں۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان میں معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیلاب سے 7.8 ملین ایکڑ پر فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ جبکہ 73 حاملہ عورتیں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی نے پاکستان میں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر نے کہا کہ میں ایریا سٹڈی سنٹر کو 16 ویں سیمینار کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر مسعود خان نے ویڈیو لنک کے ذریعہ کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا دوطرفہ معاملات کو بات چیت کے زریعہ حل کرنا ضروری ہے۔ امریکی سفیر ڈونلڈ آرمن بلوم نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے زمین پر موجود اداروں کے لیے ابتدائی طور پر 50 ملین ڈالرز کی امداد دے رہے ہیں۔ امید ہے کہ مدد کرنے کے دیگر طریقے بھی ڈھونڈیں گے، یہ بہت نازک لمحہ ہے کیونکہ بہت سے لوگ بغیر چھت کے موجود ہیں۔ ہم ایک ایسے انفراسٹرکچر کی تعمیر چاہتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کر سکے۔