جوانوں کو پیروں کا استاد کر

Sep 15, 2022

سکندر 350 سے 323 قبل مسیح تک مقدونیہ کا حکمران رہا۔ اس نے ارسطو جیسے استاد کی صحبت پائی۔ کم عمری ہی میں یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ مصر اور فارس تک فتح کر لیا۔ کئی اور سلطنتیں بھی اس نے فتح کیں جسکے بعد اسکی حکمرانی یونان سے لےکر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیل گئی۔صرف بائیس سال کی عمر میں وہ دنیا فتح کرنے کیلئے نکلا۔باپ کی موت کے وقت سکندر کی عمر بیس سال تھی۔ لیکن وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ کسی مشکل کے بغیر ہی اسے مقدونیہ کی حکمرانی مل گئی تھی۔ ورنہ اس زمانے کا قاعدہ تو یہی تھا کہ بادشاہ کا انتقال ہوتے ہی تخت کے حصول کیلئے لڑائیاں شروع ہو جاتیں اور اس لڑائی میں ہر وہ شخص حصہ لیتا جس کے پاس تخت تک پہنچنے کا ذرا سا بھی موقع ہوتا۔ سکندر ایک تو اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا، دوسرا اس وقت مقدونیہ کی حکمرانی کا کوئی اور خاص دعوے دار نہیں تھا۔ سکندر کی ایک اور خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ اسے ارسطو جیسا استاد ملا تھا جو اپنے زمانے کا قابل اور ذہین ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ اس کے باپ ”فلپس“ نے اپنے بیٹے کی جسمانی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس کیلئے اسے شاہی محل سے دور ایک پر فضا مقام پر بھیج دیا تاکہ عیش و عشرت کی زندگی سے وہ سست نہ ہو جائے۔ یہاں سکندر نے جسمانی مشقیں بھی سیکھیں اور گھڑ سواری، نیزہ اور تلوار بازی میں مہارت بھی حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ ارسطو اس کی ذہنی تربیت بھی کرتا رہا۔
سکندر اعظم صرف 32 سال کی عمر میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت قائم کرنے والا نوجوان تھا۔ سلطان محمد فاتح، سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے جو 1444ءسے 1446ءاور 1451ءسے 1481ءتک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔ انہوں نے محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) فتح کرکے عیسائیوں کی بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کر دیا۔ اس عظیم الشان فتح کے بعد انہوں نے اپنے خطابات میں قیصر کا اضافہ کیا۔ا±نہیں سلطان محمد الفاتح یا سلطان الفاتح کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
سلطان محمد ثانی نے مسیحیوں کے اس عظیم مرکز اور باز نطینی سلطنت کے اس مستحکم قلعے کو فتح کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواہش کو پورا کر دکھایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں فتح قسطینطینہ کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اسکے فاتحین کو جنت کی بشارت دی تھی۔ قسطنطنیہ فتح کر کے سلطان محمد ثانی نے اسلام کی نامور ہستیوں میں ایک ممتاز شخصیت کی حیثیت اختیار کر لی۔ قسطنطنیہ فتح ہوا اور زمانے نے دیکھا کہ باز نطینی سلطنت کے ہزار سالہ غرور اور تکبر کے بت اوندھے پڑے ہوئے ہیں اور قسطنطینہ کی فصیل کے نیچے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقبرے پر ہلالی پرچم کا سایہ ہے۔ قسطنطینہ کی تسخیر عالم اسلام کیلئے مسلمانوں کی جرات و شجاعت کی یادگار ہے۔کسی بھی تحریک ، انقلاب یازمانے کو نئی راہ پر ڈالنے میں اگر نوجوان ہر اوّل دستہ ہوں تو پھر تاریخ کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ، اسی لئے جب تقسیم ہند اورنئی سرزمین کی جستجو میں مسلمانان ہند صف بندی کرنے لگے تو علامہ محمد اقبال نے بھی اپنے خیالات کو نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچانے کی کوشش کی اور نوجوان نسل کیلئے اپنے افکار کی وہ شمعیں روشن کیں،جن کی روشنی میں نوجوانوں نے ایک نئے دور اورنئے سماج کی بنیاد رکھی۔ اقبال جانتے تھے کہ کسی بھی قوم کے جوانوں میں کسی بھی پیغام کو قبول کرنے کی نہ صرف صلاحیت ہوتی ہے بلکہ وہ اس پیغام کےمطابق اپنی زندگی گزارنے کیلئے کسی قسم کے سمجھوتے کو خاطر میں نہیں لاتے۔ دراصل علامہ محمد اقبال کو نوجوانوں پر کامل یقین تھا، اسی لئے وہ دعائیہ لہجے میں کہتے تھے ۔خرد کو غلامی سے آزاد کرجوانوں کو پیروں کا استاد کرانہیں بلا کا ادرا ک تھا کہ نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہی مستقبل کی باگ ڈور ہے ، اگر اسے صحیح معنی میں مہذب، باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور روشن خیال بنا دیا جائے تو ہی آنے والا کل تابناک ہو گا ورنہ اس قوم کو اندھیروں میں بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔قارئین، سکندر اعظم اور سلطان فاتح نے جوانی میں ہی بڑے بڑے کام سر انجام دیے انکی سوچ اور فکر سے وہ جوانی میں ہی کامیابی کی منزلیں طے کر گئے۔اگر ہم آج کا زمانہ دیکھیں سائنس اور ٹیکنالوجی میں بھی نوجوان ہی کمال کر رہے ہیں، فیس بک کا بانی مارک زرک برگ ایک نوجوان ہی ہے اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اسکا شمار ہوتا ہے۔اگر پاکستانی سیاست کی بات کی جائے تو پاکستان تحریک انصاف واحد جماعت ہے جہاں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔انکی پارٹی میں ملک تیمور، واثق عباسی جیسے نوجوان منسٹرز ہیں جبکہ دیگر جماعتوں میں ایسا نہیں ہے۔ ن لیگ آج بھی بزرگ سیاستدانوں پر منحصر ہے، البتہ بلاول بھٹو زرداری ایک نوجوان سیاست دان ہیں لیکن انھیں بھی اظہر مشوانی اور زبیر نیازی جیسے نوجوان ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ اس ملک کو اگر ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو نوجوان نسل کیلئے مواقع پیدا کرنا ہونگے۔ اسی لئے اقبال نے کہا
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

مزیدخبریں