پاکستان کے 1973ءکے متفقہ آئین میں چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری کا طریقِ کار درج ہے۔ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی ابہام ہے اور نہ اشکال لیکن سابق وزیر اعظم ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ عمران خان اس ایشو کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اپنے بیانات میں کبھی وہ درفنطنی چھوڑتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو آرمی چیف کے تقرر کا حق حاصل نہیں ہے۔ کبھی کہتے ہیں کہ نئی منتخب حکومت کے اقتدار میں آنے تک موجودہ آرمی چیف کو برقرار رکھا جائے۔
آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ آرمی چیف کے تقرر کا اختیار وزیراعظم کو حاصل ہے جو سینئر آرمی آفیسرز میں سے کسی ایک کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے کے لیے نامز د کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان اس ایشو پر بھی سیاست کرکے عسکری قیادتوں کے حوالے سے افواج پاکستان کی صفوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ انہیں اگر اس حوالے سے کوئی اعتراض یا تحفظات ہیں تو اس کے لیے پارلیمنٹ کا فورم موجود ہے اور اگر آئین میں کسی ترمیم کے خواہاں ہیں تو اس کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے لیکن محض بیانات کے ذریعے ہوا میں تیر چلانا مناسب نہیں ہے۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی حالات بھی اس امر کے متقاضی ہیں کہ عسکری قیادت کے حوالے سے کسی بھی قسم کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کیا جائے۔ آرمی چیف کا تقرر ایک سنجیدہ معاملہ ہے اسے سنجیدگی ہی سے طے کیا جانا چاہیے۔ عسکری قیادت کے بارے میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کر نا ملک وقوم اور اس ادارے کے بھی مفاد میں نہیں ۔
آرمی چیف کے تقرر کے حوالے سے عمران خان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ
Sep 15, 2022