پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ عالمی ادارے ’جرمن واچ‘ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے جائزے پر مبنی اپنی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کے مطابق، پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو ان تبدیلیوں کے باعث بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ اسی طرح، برطانیہ کے موسمیاتی ادارے کی تحقیق بتاتی ہے کہ موسموں کی شدت کے پاکستان اور شمال مغربی بھارت میں ریکارڈ ٹوٹنے کے امکانات سو گنا سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں۔ ان اداروں کی رپورٹوں اور جائزوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے کا سلسلہ رکنے والا نہیں اور مستقبل میں ہمیں مزید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اندریں حالات، ہماری معیشت بھی بری طرح متاثر ہوگی اور ہمیں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان بھی سہنا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں اور پالیسی سازوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟ اور بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے اس حوالے سے ہماری کتنی اور کیسے مدد کرسکتے ہیں؟
رواں برس 6 سے 18 نومبر تک مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سالانہ کانفرنس ہورہی ہے جسے ’کانفرنس آف دی پارٹیز‘ یا ’کوپ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس سلسلے کی ستائیسویں کانفرنس ہے، یوں یہ کوپ 27 کہلائے گی۔ تیس سال پہلے جون 1992ءمیں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں وجود میں آنے والے اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج نامی معاہدے کے تحت ہونے والی ان کانفرنسوں کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے اثرات پر بات کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔ مذکورہ معاہدے کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے ’موسمیاتی نظام میں خطرناک انسانی مداخلت‘ کا انسداد کیا جائے گا۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران یہ کام کس حد تک ممکن ہو پایا ہے، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس اپنے حالیہ دورہ¿ پاکستان کے موقع پر ملک کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور وہاں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر انھوں نے کہا کہ ’پاکستان دوسرے ملکوں کی پیدا کردہ آلودگی سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پورے کرنا اکیلے پاکستان کے وسائل سے ممکن نہیں، دنیا کی ذمہ داری ہے کہ اس مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دے۔‘ انتونیو گوتریس کا یہ بیان کئی حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے جہاں انھوں نے ایک طرف پاکستان سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے وہیں انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں میں اتنا حصہ نہیں ہے جتنی قیمت انھیں ادا کرنا پڑرہی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک دنیا میں مختلف قسم کی آلودگیوں کے بڑھنے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ذمہ دار ہیں لیکن وہ طاقتور ہیں اس لیے ان کا ہاتھ کوئی نہیں روک سکتا۔
پاکستان اگر چاہے تو دنیا کے سب سے بڑے اور اہم ادارے کے سربراہ کے مذکورہ بیان کو مختلف بین الاقوامی فورمز پر اپنے حق میں استعمال کر کے دنیا کو احساس دلانے کی کوشش کرسکتا ہے کہ ہمارے مسائل کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کی بنیاد ترقی یافتہ ممالک نے رکھی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف آئندہ چند روز میں اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک جارہے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہاں اس مسئلے پر نہ صرف مذکورہ اجلاس میں بات کریں بلکہ مختلف ممالک اور حکومتوں کے سربراہوں اور ان کے نمائندوں سے ہونے والی ملاقاتوں میں بھی اس کا ذکر کریں۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ کئی اور ممالک کو بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایسے تمام ممالک اگر پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر ٹھیک سے آواز اٹھاتے ہیں تو بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو اجاگر کر کے ایک تحریک کا آغاز کیا جاسکتا ہے جس کا مختصر سا ایجنڈا یہ ہوسکتا ہے کہ دنیا کے جو بڑے ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں وہ ان ملکوں کے نقصان کی تلافی بھی کریں جو ان تبدیلیوں سے منفی طور پر متاثر ہورہے ہیں۔
سیلاب نے پاکستان کے بڑے حصے کو جس بری طرح متاثر کیا ہے اور اس سے جو نقصان ہوا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ اس سے بحال ہونے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں جو نقصان ہوا وہ اکتوبر 2005ءمیں آنے والے زلزلے سے ہونے والے نقصان سے زیادہ ہے۔ یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان کی پارلیمان کے اندر اور باہر موجود تمام سیاسی قیادت اور دیگر سٹیک ہولڈرز اس حوالے سے متفق ہوں کہ پاکستان کو قدرتی آفات کے نقصانات سے بچانے کے لیے ہم نے جلد از جلد ایک جامع اور قابلِ عمل پالیسی وضع کرنی ہے تاکہ ملک کی معیشت کو ہر تھوڑے عرصے بعد لگنے والے بڑے دھچکے سے محفوظ رکھا جاسکے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کے بارے میں مسلسل بین الاقوامی سطح پر بات کرنا اور مذکورہ پالیسی کی تشکیل کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانا ہمارے مقتدر حلقوں کی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ان کا فرض ہے جو انھیں چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ادا کرنا ہی پڑے گا۔
موسمیاتی تبدیلی، کوپ 27 اور پاکستان
Sep 15, 2022