عمومیت سے ہٹ کر حل 

کسی بھی م±لک کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع فوج کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ م±لکی نظریاتی اساس کی سلامتی اور تحفظ بھی فوج کا بطور ادارہ اہم فرض ہے۔دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں فوج کے سیاسی کردار پر دوسری رائے نہیں اور فوج پر سویلین برتری کا اصول پوری طرح نافذالعمل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صدیوں پر محیط ان کی جمہوری و سیاسی تاریخ ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، اور مغرب کے دیگر کئی ممالک کے نام ان میں سرفہرست ہیں۔ کئی جمہوری ممالک ایسے بھی ہیں جیسا کہ ہندوستان، جو کئی صدیاں بیرونی افواج کے زیر تسلط رہنے کے بعد آزادی کی نعمت سے مالا مال ہوئے تو وہ اب اس آزادی کی قدرومنزلت جمہوری سیاسی نظام میں ہی تلاش کرتے ہیں۔ 
دنیا کے بیشتر ممالک ایسے بھی ہیں جہاں مغربی طرز کی جمہوریت رائج نہیں، معاشی ترقی ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے، اور فوج پس پردہ رہ کر منتخب سول حکومت کی پشت پناہی کرتی ہے ، تاکہ سیاسی استحکام کے نتیجہ میں معاشی ترقی و استحکام کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔ سیاسی مفکر اسے محدود یا ہدایت یافتہ جمہورییت کا نام دیتے ہیں۔ بعض مفکرین کے نزدیک یہ کنٹرولڈ جمہوریت ہے۔ ان ممالک میں مشرق اور مشرق بعید کے ایشیائی ممالک  Asian Tigersسب سے نمایاں ہیں، جن میں سنگاپور، تھائی لینڈ، تائیوان، ملائشیا، انڈونیشیا، روس اور چین قابل ِ ذکر ہیں۔ چین ان میں سب سے اوپر آتا ہے، جو جمہوری مرکزیت کے اصول کو اپنائے ہوئے ہے، اور یک سیاسی جماعتی نظام کے فلسفہ پر قائم رہتے ہوئے مغرب کے دو عظیم سیاسی نظریات کو شکست سے دو چار کیے ہوئے ہے۔ ایک جمہوریت اور دوسرا سرمایہ داری۔ مغرب کا فلسفہ رہا ہے کہ صرف جمہوری اور سرمایہ دارانہ ممالک ہی ترقی کرتے ہیں۔
 چین نے مغربی طرز جمہوریت اور سرمایہ داری نظام نہ رکھنے کے باوجود معاشی میدان میں مغرب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اور امریکہ سے بڑی معاشی طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ اسی طرح مشرق وسطی، مشرقی یورپ، وسطی، اور جنوبی امریکہ کے کئی دیگرممالک کی مثال بھی دی جاسکتی ہے جہاں فوج نے پس پردہ رہ کر جمہوری سیاسی حکومتوں کی مدد کی تاکہ سیاسی و معاشی استحکام کا حصول ممکن ہوسکے۔ 
پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے کے خطرہ سے دو چار ہے۔ سیاسی عدم استحکام بھی اپنے بام عروج پر ہے۔ ان حالات میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح م±لک سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہوکر آزاد ممالک کی اس برداری میں اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھ پائے گا کہ نہیں؟ ایٹمی پاکستان اپنی سلامتی اور بقا¿ کی جنگ لڑ رہا ہے، غیر معمولی حالات ہیں ، فیصلے بھی غیر معمولی کرنے پڑیں گے، ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور پچھتاوے کے علاوہ ک±چھ ہاتھ نہ آئے ۔ 
ایک غیر معمولی قدم یا آو¿ٹ آف دی باکس حل یہ ہوسکتا ہے کہ افواج پاکستان کی اعلی قیادت کے سیاسی و آئینی کردار کی وضاحت کردی جائے، قومی سلامتی کمیٹی پہلے سے موجود ہے، اس کے کردار کو اور فصاحت کے ساتھ آئینی شکل دے دی جائے۔ کم ازکم اتنی مدت کے لئے جب تک پاکستان معاشی بحران سے نکل نہیں آتا۔ 
معاشی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران نے ایسی گھمبیر صورت اختیار کرلی ہے کہ م±لک کی ایک بڑی سیاسی جماعت اور م±لک کی سلامتی کا ادارہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اور ہم ایک تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس تصادم کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟ اس کے بارے میں متضاد آراءہیں۔
 پہلی را ئے میں پاکستان انقلاب کے دہانے پر کھڑا ہے، اسی طرح کا انقلاب جو ہمسایہ م±لک ایران میں برپا ہوا، یا مشرق وسطی کے ممالک میں عرب بہار کی شکل میں نمودار ہوا۔ دوسری صورت میں اقتدار کی کھینچا تانی جاری رہ سکتی ہے، حتیٰ کہ انتخابات کے بعد بھی سیاسی اور معاشی استحکام کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی۔ جس کا نتیجہ م±لک میں ایک بار پھر براہ راست فوجی مداخلت یعنی پانچویں مارشل لاء کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ جس سے م±لک استحکام کی بجائے خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے، جس سے ہمارے دشمن فائدہ ا±ٹھا سکتے ہیں۔ تیسری صورت ایسی ہے جس سے ہم اس مشکل سے نکل سکتے ہیں۔ اور وہ صورت ہے اقتدار سے منسلک تمام حصہ داروں کے درمیان شراکت داری۔ تمام سٹیک ہولڈرز خود مسئلہ بننے کی بجائے مسئلہ کے حل کا حصہ بنیں۔ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا نے والے اپنی اپنی ذمہ داری ا±ٹھائیں۔ اس کا حل آئین میں رہتے ہوئے آئین اور قانونی اصلاحات کے ذریعہ نکالا جاسکتا ہے۔ 
اس وقت پاکستان کے ہر ادارے پر ا±نگلی ا±ٹھائی جارہی ہے۔ کوئی ایک ادارہ بھی تنقید سے مبرا نہیں۔ اس کا بہتر حل یہ ہے کہ زمینی حقائق کا ادراک کیا جائے، مثالیت پسندی کی سوچ اپنانے سے بہتر ہے کہ عملیت پسندی کو اپنایا جائے۔اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ریاست کے طاقتور ادارے فوج کا ایک کردار سیاسی بھی ہے۔ صرف یہ کہہ دینے سے کہ ان کا کردار صرف سرحدوں کی حفاظت ہے، بات نہیں بنے گی۔ فوج کے اس کردار کو جو پس پردہ ہے، جس سے کسی ایک سیاسی قوت کو بھی انکار نہیں تو بہتر یہ ہی ہے کہ م±لک اور قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فوج کے اس کردار کو ایک آئینی شکل دے دی جائے۔ 
اس کا حل یا تجویز یہ ہے کہ ایک سپریم نیشنل کونسل قائم کی جائے جو نو ممبران پر مشتمل ہو۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، چئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف، آرمی چیف، ڈی۔جی۔ آئی ایس آئی۔، چیئرمین سینٹ، سپیکر قومی اسمبلی، اور اپوزیشن لیڈر۔ قومی سلامتی اور ہنگامی حالات میں ایجنڈا کی تشکیل اور منظوری اس کے دائرہ کار کا واحد حصہ ہو۔
م±لک میں کسی بھی سیاسی، آئینی، معاشی بحران کی صورت میں اگر ڈیڈ لاک پیدا ہوجائے، تو یہ سپریم نیشنل کونسل اتفاق رائے سے مسئلہ کا حل تلاش کرے۔ آئینی ترمیم کے ذریعہ اس کونسل کے کردار اور اختیار کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ 
صرف یہ عرض کردوں کہ اس ادارے کے قیام سے سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا اور م±لک میں جمہوریت مضبوط ہوگی۔ پارلیمنٹ کی خودمختاری پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔ عدلیہ کی آزادی برقرار رہے گی۔الیکشنز وقت پر ہوں گے۔ اداروں کے درمیان ٹکراو¿ کا امکان کم سے کم ہوجائے گا۔ سپریم نیشنل کونسل کی موجودگی میں انتخابات کے لیے نگران حکومت کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔ ایک ایٹمی م±لک کے لیے نگران حکومت کا قیام کسی طرح مناسب نہیں۔ معاشی سرگرمیوں میں بھی تسلسل قائم نہیں رہتا۔ بے یقینی کی کیفیت ختم ہوجائے گی۔ م±لکی سیاسی نظام پر اندرونی و بیرونی قوتوں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اور پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوکر ایک عالمی برادری میں ایک اعلی اور پروقار مقام حاصل کرسکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن