قدیم یونانی کہاوت ہے کہ جنگ کی حمایت کوئی ذی شعور نہیں کر سکتا کیونکہ جنگ کے دوران خلاف معمول جوان بیٹوں کی میتیں بوڑھے باپ اٹھاتے ہیں۔ یہ کہاوت اپنے اندر جنگ کی ہولناکی کا سب سے بھیانک منظر سموئے ہوئے ہے اس تلخ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتالیکن جب کسی مکار اور ظالم طالع آزما کی طرف سے زبردستی جنگ ٹھونس دی جائے تو پھر غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ ایسے عیار دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ تاریخ کے صفحات پہ نگاہ دوڑائی جائے تو اس کا غالب حصہ جنگ و جدل کی تاریخ پہ مبنی ہے جنگ عام طور پر دو قسم کی ہوتی ہے جارحانہ اور مدافعتی جارحانہ جنگجو کو تاریخ کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تاآنکہ اس جارحیت یا چڑھائی کی کوئی معقول وجہ ہو۔تاریخ گواہ ہے کہ بیشمار طالع آزما طاقت کے نشے میں بدمست اندھا دھند اپنے سے نسبتاً کمزور قوت کو روند ڈالنے کے زعم میں حملہ آور ہوتے رہے ہیں ایسا ہی ایک جارحیت پسند اور مکروہ عزائم کا حامل ہمسایہ بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ نبزد آزما رہتا ہے جو وقتاً فوقتاً اپنی عسکری برتری کے زعم اور پورے خطے میں تھانیداری کی غرض سے طالع آزمائی کرتا رہتا ہے لیکن اکثر اوقات منہ کی کھانی پڑی ہے۔ ایسا ہی معرکہ ستمبر 1965 میں پاکستان کو درپیش تھا جب بزدل لیکن سفاک دشمن نے آپریشن جبرالٹر نامی عسکری آپریشن کا بہانہ بنا کر رات کی تاریکی میں پاکستان پر حملہ کر دیا گو کہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر پہلے حملہ آور ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن پاکستان کا ٹھوس موقف رہا ہے کہ پہل بھارت نے کی آپریشن جبرالٹر کا بہانہ بنا کر اپنے دیرینہ ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے بھارت اچانک پاکستان پہ حملہ آور ہوا۔ بھارت کو اس جنگ میں ہر حوالے سے پاکستان پہ عددی برتری حاصل تھی، بھارت کی سات لاکھ انفینٹری کے مقابلے میں پاکستانی آرمی کی کل تعداد 2,60,000 تھی، اسی طرح بھارت کے 780 جنگی جہازوں کے مقابل پاکستان کے پاس صرف 280 جہاز تھے البتہ ٹینکوں کی جنگی صلاحیت کے لحاظ سے پاکستان کو کچھ برتری حاصل تھی۔ بھارت کے 9 انفینٹری ڈویڑن کے مقابل پاکستان کے پاس چھ انفینٹری ڈویڑن تھے لیکن اتنے بڑے فرق کے باجود پاکستانی افواج نے اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت اور بہترین جنگی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارض وطن کے چپے چپے کا کامیاب دفاع کیا یقیناً یہ نصرت الٰہی کے بغیر ممکن نہ تھا یہ فقید المثال معرکہ جدید دنیا کی جنگی تاریخ کا اہم اور مشہور معرکہ تھا جنگ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کا سب سے بڑا معرکہ اسی جنگ میں چونڈہ کے محاذ پر پیش آیا جس میں آزاد ذرائع کے مطابق فریقین کے سینکڑوں ٹینک تباہ ہوئے تاہم بھارتی نقصانات کافی زیادہ تھے۔پاکستانی افواج کے پاس بھارت کی نسبت بہت کم تعداد میں ٹینک تھے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جانبازوں کا ایک 'فنا فی اللہ' نامی دستہ تیار کیا گیا جس نے اپنی جانبازی اور سرفروشی کا فقید المثال مظاہرہ کیا جس پہ دنیا کے جنگی مبصر ورطہ حیرت میں پڑ گئے۔ فنا فی اللہ کے سرفروشوں نے اپنے جسم سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں پہ ہلہ بول دیا اور چند لمحوں میں دشمن کے سینکڑوں ٹینک تنکوں کی مانند بکھر گئے نتیجتاً 30 کلومیٹر بلا مزاحمت پاکستانی حدود میں داخل ہونے والا دشمن فورآ دفاعی پوزیشن پہ آ گیا۔ اسی طرح پاک فضائیہ کے لیجنڈری پائلٹ ایم ایم عالم کا ناقابل فراموش کارنامہ کون بھول سکتا ہے جنھوں نے ایک منٹ میں دشمن کے پانچ طیارے گرانے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا۔ پاک فضائیہ کی بھارتی فضائیہ پہ برتری غیر جانبدار مبصرین نے بھی تسلیم کی ہے اور ان مبصرین نے بھی جو بھارتی زمینی افواج کا پلہ اس جنگ میں بھاری قرار دیتے رہے ہیں۔ بھارتی فضائیہ کا ‘‘فولینڈ گنیٹ ‘‘ طیارہ جو 1965 کی جنگ کیدوران پسرور میں لینڈ کرا لیا گیا تھا آج بھی کراچی عجائب گھر میں پاک فضائیہ کی برتری کے ثبوت کے طور پر موجود ہے۔ اس جنگ میں پاک نیوی بھی جنگی مہارت اور اعلیٰ پیشہ ورانہ کارکردگی کے باعث عسکری تاریخ میں نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔کموڈور ایس ایم منصور کی قیادت میں آپریشن دوارکہ میں پاک نیوی نے سینکڑوں کلومیٹر دور دوارکہ کے مقام پر بھارتی راڈار سسٹم پر پرفیکٹ نشانے پر بمباری کر کے ناکارہ بنا دیا آپریشن دوارکہ کی بابت بعد ازاں بھارتی پارلیمنٹ میں بھی سوال اٹھایا گیا اور شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا اسی طرح پاکستان کی مشہور عالم سب میرین پی این ایس غازی نے بھارتی ائیر کرافٹ کیریئر 'آئی این ایس وکرانت' کو پوری جنگ کے دوران بمبئی (موجودہ ممبئی) تک محدود رکھا جو جنگی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ بھارت نے وزارت دفاع کی ڈرافٹ کردہ دستاویز
Official war history of 1965
(جو طویل عرصے تک چھپائے رکھی گئی) 1992 میں اس دستاویز میں انکشاف ہوا کہ اپنے بھارت نے اپنے غلط اندازے لگانے، بری اور فضائی افواج میں رابطے کے فقدان سمیت دیگر ناکامیوں کا اعتراف کیا اس کے علاؤہ یہ بھی تسلیم کیا کہ وزارت دفاع اور آرمی چیف کے مرتب کردہ جنگی پلان میں فضائیہ کے کردار کو جگہ ہی نہیں دی گئی جسے نہ صرف بڑی ناکامی قرار دیا گیا بلکہ بھارتی بری افواج کا دیگر عسکری اداروں سے کمتر سلوک بھی قرار دیا اسی طرح اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ بھارتی عسکری قیادت کو آخر وقت تک علم نہ تھا کہ کس بارود استعمال کر چکے اور ان کے خلاف کتنا اسلحہ بارود استعمال ہوا ہے یا یہ کہ پاکستان کے پاس کتنے دن کا ذخیرہ موجود ہے ۔یہ تمام امور اشارہ کرتے ہیں کہ بھارت کسی طور اس جنگ کے نتائج سے مطمئن نہ تھا لیکن انتہائی افسوسناک اور مایوس کن بات ہے ہمارے چند خود ساختہ دانشور اور سوشل میڈیائی نوجوان بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر اس جنگ کو پاکستان کی ناکامی قرار دیتے ہیں شاید وہ فوج کی تعداد کے فرق، اسلحہ بارود، جنگی ساز و سامان، آلات حرب (بشمول بری بحری اور فضائی) کی تعداد کو نظر انداز کر کے رائے قائم کرتے ہیں۔ اس جنگ کو مبصرین بے نتیجہ جنگ قرار دیتے ہیں یعنی کسی کو فتح حاصل نہ ہوئی پاکستان بھی اپنے کامیاب دفاع کا جشن مناتا ہے لیکن مذموم بھارتی عزائم کو خاک میں ملانا ہماری جیت ہی ہے جس پہ بجا طور پر فخر کیا جا سکتا ہے
جنگ ستمبر! حمیت کی قابل رشک داستان
Sep 15, 2022