پی ٹی آئی کے اندر جاری ایک طرح کی لڑائی شٹرائی کا سن رہے ہیںجو سنجیدہ اور غیر سنجیدہ پارٹی عہدیداروں میں ہو رہی ہے ۔یہ لڑائی پارٹی سربراہ کی طرف سے حال ہی میں ایک خاتون جج صاحبہ کے بارے میں جاری ایک قابل گرفت بیان کے بعد شروع ہوئی ہے جسے پارٹی کی عمران خان کے بعد باقی نمبروں پر آنے والی سینئر قیادت نے نا پسند کیا بلکہ اپنے لیڈر کو اس قسم کے بیانات جاری کرنے سے منع بھی کیا جس کا ہمارے نزدیک ایک طرح سے فائدہ ہی ہوا ہے اور پارٹی سربراہ اب اس پارٹی کے اندورنی دباؤ پر کچھ سیریس یعنی سنجیدہ طرز عمل اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیںمگر یہ الگ بات کہ وہ اپنے بیان پر معافی مانگنے سے اب بھی گریزاں ہیںتاہم ایک اور حوالے سے اُن کی سوچ میں تھوڑی سی ہی سہی مگر تبدیلی دیکھنے سننے میں آئی ہے۔کل مختلف ٹی وی چینلوں پر یہ خبر چلتے دیکھی ہے ہم نے کہ ’’عمران خان نے حکومت سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کر دی ہے ‘‘۔خبر کے دیکھتے سنتے ہی ہمارے زہن میں جو پہلا فقرہ آیا وہ یہی روایتی سا فقرہ تھا کہ ’’اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ‘‘۔جی بالکل یہ فقرہ اب ٹھیک بیٹھ رہا ہے پی ٹی آئی سربراہ کی سیاسی چال چلن پہ ،اور زہن سوچ رہا ہے کہ یہ وہی عمران خان ہیں جو کل تک چوہدری پرویز الہیٰ کو چور ڈاکو کے سوا کسی اور نام یا لقب سے پکارتے ہیں نہیں تھے مگر وقت پڑنے پر انہیں بھی گلے سے لگا بیٹھے ہیں اور اب صبح شام جنہیں(نواز شریف ،آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمان اور وزیر اعظم شہباز شریف)وہ چور ڈاکو کہہ کر پوری دُنیا میں بدنام کر رہے ہیں کو بھی گلے لگانے پر تیار ہو چکے ہیں ،دوسری طرف وہ اب اپنے امریکی سازش کے بیانئے سے بھی پیچھے ہٹ کر امریکی غلامی نامنظور کی بجائے امریکی غلامی قبول کرتے ہوئے امریکیوں کو بھی گلے لگانے پر تیار ہو گئے ہیں ،یہی نہیں جنہیں وہ جانور کاخطاب دیتے ہوئے اپنے ہر جلسے میں ہدف تنقید بنایا کرتے تھے اُن کے بھی معذرت کے ساتھ اب بو ٹ پالش کرنے پر وہ بھی آمادہ دکھائی دینے لگے ہیں تو یہ سب دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر ایسا کیااندازہ لگا بیٹھے ہیں یا ایسا کیا ہوتا نظر آرہا ہے انہیں کہ وہ کہ اپنے ہر سخت ترین بیانئے سے یو ٹرن لینے پر مجبور ہو گئے ہیں مگر اس سے پہلے ہم کہ ان وجوہات کی طرف آئیںتھوڑی تھوڑی سی بات ان کے اِن تینوں بیانیوں سے متعلق ہو جائے تاکہ بات مزید آسانی سے سمجھ میں آجائے ۔حکومت سے اس لئے بات چیت پر تیار نظر آنے لگے ہیں کہ یہ نیوٹرلز کی وہ دبی دبی سی خواہش ہے گذشتہ قریبا ً سال ڈیڑھ سال سے جس کا مقصد ملک سے اِن کی طرف سے یعنی عمران خان صاحب ہی کی طرف سے پھیلائے جانے والے سیاسی انتشار اور سیاسی عدم استحکام کو ختم کر کہ معاشی راہ ہموار کرنا ہے ،دوسرا امریکی غلامی نامنظور کے بیانئے سے یوٹرن کی وجہ امریکی غلامی قبول کر کہ دوبارہ سے اقتدار میں آنے کی خواہش ہے جسے ہر سیاسی شعور رکھنے والا ان کی ناکام کوشش قرار دے رہا ہے ۔تیسرا نیوٹرلز کے پھر سے مائی باپ سمجھ کر موجودہ آرمی چیف کو توسیع دینے والے گیت کے گانے کا مقصد بھی دراصل سٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں پھر سے حاصل کرنے کی کوشش ہے جسے بھی ہر بالغ نظر سیاسی کارکن اسے بھی اِن کی ناکام کوشش قرار دے رہا ہے اور جن کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ عمران خا ن بھی یہ جانتے ہیں کہ وہ توسیع نہیں لیں گے تو چلو کم ازکم انہیں خوش تو کر دو ں تاکہ آئندہ کا راستہ ہمواررہے ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اُنکی گذشتہ چھبیس برسوں کی سیاسی جدوجہد پر غور کیا جائے تو اس طویل عرصہ کے ماضی قریب کے نو برسوں میں ہمیں یہی نظر آیا کہ وہ کوئی سنجیدہ مزاج نہ ہی سنجیدہ فکر و خیال کے حامل سیاستدان ہیں اور انہوں نے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کوئی ایساکام یا کارنامہ انجام نہیں دیا جس کا ہم ،وہ خود یا کوئی بھی فخر سے زکر کر سکے کیونکہ یہی وہ نو برس ہیں جن میں صاحب اقتدار یا صاحب اختیار رہے مگر اب آخر میں یعنی دو روز پہلے اپنے بیانیوں سے جو یو ٹرن انہوں نے لیا ہے اسی یو ٹرن نے تمام کسر نکال دی ہے جس کا ان کے نزدیک بظاہر مقصد دوبارہ اقتدا ر میں آنا ہی ہے مگر جہاں تک ہماری سوچ کا تعلق ہے تو اُن میں سیاسی پختگی اور رواداری کا قابل قدر شعور اب بیدا ر ہوا ہے جس کا ظاہری سی بات ہے تما م تر فائدہ ملک اور قوم کو ہی ہونا ہے جو اِن ہی کی سیاسی غلطیوں کا ناقابل برداشت مہنگائی کی صورت میں خمیازہ بھگت رہی ہے ۔ہم پی ٹی آئی سربراہ سے توقع یہی رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے متذکرہ تینوں بیانیوں سے جو یوٹرن لیا ہے اس یو ٹرن جو ہمیں بھی اچھا لگا پر نہ صرف قائم رہیں گے بلکہ اِن یوٹرن سے بھی اب کسی صورت دوسرا کوئی یو ٹرن نہیں لیں گے کیونکہ یہ یو ٹرنز ایسے ہیں جس سے ملک میں سیاسی استحکام جنم لے گا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک کی معاشی ترقی بھی یقینی صورت اختیار کرے گی ،انہیں بس صرف سوچنا یہ ہے کہ وہ ملک و قوم کے لئے لازم و ملزوم ہیں نہ ملک و قوم صرف اُن کا محتاج ہے ۔اُن کے لئے اگر اب کچھ ضروری ہے تو یہی کہ وہ سڑکوں پر آنے کی باتیں چھوڑ دیں کیونکہ یہ سب اب اُن کیلئے ویساآسان نہیں رہا جیسا پہلے ہوا کرتا تھا ،اب حالات بہت مختلف ہیں جن کا انہیں ادرا ک کرنا چاہیے اور سیاسی دائروں کے اندر رہ کر سیاست کرنی چاہیے جن کا انہیں پارٹی کے اندر سے بھی مشورہ دیا جا رہا ہے سو قبول کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کا اُن کے بغیر مکمل نہیں مگر انہیں بھی یہ زہن نشین رکھنا ہوگا کہ وہ بھی پارٹی کی نچلی قیادت کے بغیر کچھ نہیںبلکہ پرویز خٹک اور شاہ محمود قریشی کا زکر تو صبح شام ہو رہی رہا ہے اسی حوال یسے توکہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ’’جھپٹا‘‘ مار ہی نہ لیں قیادت کی کرسی پر ، حالات تو ویسے بھی اسی طرف جا تے دکھائی دے رہے ہیں۔
اب آیا ا ونٹ پہاڑ کے نیچے
Sep 15, 2022