کہنہ مشق معالج اورمحقق ڈاکٹر غلام فرید گِل …کچھ یادیں ، کچھ باتیں


ہومیو پیتھک ڈاکٹر غلام فرید گِل کی رحلت کی خبر سن کر بہت ہی افسوس ہوا ہے۔ ابدی جدائی کا صدمہ نہ بھولنے والا سانحہ اور ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پورا نہ ہوسکے گا۔ وزیر اعظم اور گورنر پنجاب  نے ڈاکٹر غلام فرید گِل کی طبی، سماجی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر غلام فرید گِل  نے جس طرح شعبہ ہومیو پیتھی میں تحقیق کر کے سائنس کو وسعت دی وہ عوام اور ہومیو پیتھک حلقوں کے لئے مشعل راہ ہے۔  ڈاکٹر غلام فرید گِل مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں سٹار ہومیو پیتھک سوسائٹی پنجاب علاقہ میں فری میڈیکل کیمپ لگا کر غریب نادار عوام کو مفت ادویات فراہم کر رہی ہے۔ حکومت پنجاب اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ پروفیسر ہومیو پیتھک ڈاکٹر غلام فرید گِل تاریخ وفات 27اگست 1995۔ ڈاکٹر ذوالفقار فریدی 25اگست 2018 ، ڈاکٹر غلام فرید گِل کی وفات سے طبی سماجی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کمی کوپورا کرنا ممکن نہیں۔یہ باتیں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے  میرے  نام  تعزیتی مراسلہ میں کیا۔ اسی طرح گورنر پنجاب نے بھی آپ کی طبی خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ ڈپٹی کمشنر وہاڑی نے گورنر پنجاب کی طرف ایک تعزیتی تقریب میں کیا۔ پاکستان کی نامور شخصیات حسین شہید سہروردی، چوہدری محمد علی سابق وزیر اعظم پاکستان، انقلابی شاعر حبیب جالب اور معروف بیوروکریٹس آپ کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ ایوب خان کے دور میں گندم کا قحط پڑ گیا لوگ گندم کے دانے دانے کو ترس رہے تھے۔ ڈاکٹر غلام فرید گِل اور معروف قانون دان مرزا اعجاز بیگ  کی قیادت میں عوام نے گندم کے حصول کیلئے جلوس نکالا۔ کچھ شرپسندوں نے سرکاری گندم کے گودام لوٹنے شروع کر دئیے ان میں سکولوں کے طلباء بھی شامل ہو گئے۔ طلباء نے اپنی کتابیں پھینک کر اپنے سکول بیگز میں گندم بھری اور چلتے بنے۔  ڈی پی آرکے تحت مقدمہ درج ہوا۔ ڈاکٹر غلام فرید گِل مرزا اعجاز بیگ کے ہمراہ آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ بنا جس کی پاداش میں نو ماہ ڈسٹرکٹ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ عدالتوں سے ضمانتیں منسوخ ہوئیں ۔پھر سپریم کورٹ کے ایکشن سے رہائی ملی۔ اس مظاہرہ کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے بھر پور کوریج دی۔ بی بی سی نے گندم کے قحط اور حالات کی سنگینی کو اجاگر کیا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن میں انقلابی شاعر حبیب جالب کے ساتھ بھر پور حصہ لیا اس وقت ان کی نظم’ بیس روپے من آٹا‘ بڑی مقبول ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی الیکشن میں شکست کے بعد دل برداشتہ ہو کر سیاست سے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی کہ یہ غریب آدمی کے بس کی بات نہیں صاحب وسائل لوگوں کا مشغلہ اور کاروبار ہے۔ قیام پاکستان سے قبل ڈاکٹر غلام فرید گِل کو ایک ہومیو پیتھک ادویات کا بکس ملا۔ انڈیا کے ہومیو پیتھک ڈاکٹروں سے راہنمائی اور کامیاب کے بعد 1952 میں وہاڑی شہر میں ہومیو پیتھک کلینک قائم ہوا۔ دانتوں کے متعلق ایک کارڈز کی شکل میں بک (ریپریٹری) بنائی جس کی مدد سے دانتوں کی پیچیدہ سے پیچیدہ تکلیف ٹھیک ہو جاتی تھی۔ ان کا سلوگن ہے کہ اگر دکھتے ہپوئے دانت نکال دینے کا نام علاج ہے تو دکھتے ہوئے سر، آنکھ کان ور ناک کے بارے میں کیا خیال ہے۔ سماجی خدمات کا جذبہ قدرت نے ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کئی ایک لا وارث بے سہارا بچوں کو اپنے خرچ پر تعلیم دلوائی جو اب بڑی بڑی پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ریلوے اسٹیشن وہاڑی بڑی تعداد میں مہاجریں موجود تھے۔ انہیں مختلف جگہوں پر شہر میں لا کر آباد کیا۔ حضور نبی کریم ؐ  سے عشق و محبت کا بے پناہ جذبہ تھا۔ کوئی نعت یا سیرت طیبہ سنتے یا پڑھتے تو اپنے جذبات پر کنٹرول نہ رکھ سکتے تھے۔ ان کی سماجی خدمات میں میرے بھائی ڈاکٹر ایم اے انوار گِل نے والد صاحب کابہت ساتھ دیا اور اسی جذبہ کو میرے بھائی ڈاکٹر ذوالفقار فریدی نے پروان چڑھایا۔ مختلف جگہ پر علاقہ بھر میں فری کیمپ فری ادویات فراہم کیں۔ میرے عزیز ترین بھائی ڈاکٹر ذوالفقار فریدی کا ایک حادثہ میں انتقال ہوا۔ ان کے بعد ان کی حافظ قرآن اہلیہ اور حافظ بیٹی جو ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں انکا کلینک چلا رہی ہیں۔ لوگ  والد محترم کی خاموش خدمات کا بتاتے ہیں تو ہمارے ذہن میں ان کے طبی کے علاوہ سماجی قد کاٹھ کا مزید اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی تعزیتی کتاب میں پاکستان کی نامور شخصیات کے تاثرات موجود ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن