گزشتہ برسوں اضلاع میں تعیناتیوں پر بولیا ں لگتی رہیں

Sep 15, 2022

سیاسی ڈائری 
میاں غفار احمد 

جو زخم مندمل ہونے لگتا ہے اور جس زخم پر ’’کھرنڈ‘‘ بننا شروع ہوتا ہے جناب عمران خان اسے دوبارہ کھرچ کر تازہ کر لیتے ہیں۔ عمران خان دنیا بھر میں ایک منفرد ریکارڈ بنانے جا رہے تھے اور 9 حلقوں سے ان کی ممکنہ جیت کے تجزیے بھی کئے جا رہے تھے۔اس دوران سیلاب کا عذر پیش کر کے  الیکشن کمشن نے انتخابی عمل التواء میں ڈال دیا ہے۔اس سے کم از کم حکومت کی ایک مشکل تو آسان ہو گئی اور 13 حلقوں میں الیکشن ملتوی کر دئے گئے۔ اب نئے شیڈول کے مطابق چار حلقوں میں 9 اکتوبر کو ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا گیا ہے۔ جس کے مطابق ملتان، خانیوال بہاولنگر اور شیخوپورہ میں ضمنی الیکشن ہوں گے۔ البتہ جن 9 حلقوں سے عمران خان الیکشن لڑ رہے ہیں ان حلقوں میں فی الحال الیکشن ملتوی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس کی وجہ عدالت میں عمران خان کا توہین عدالت کا مقدمہ ہے جبکہ بظاہر عدلیہ کی طرف سے ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی۔ 
جنوبی پنجاب میں پولیس کے مظالم جاری ہیں، جرائم کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں ایس ایچ او حضرات کی تعیناتیاں ہر دور میں میرٹ کو ایک طرف رکھ کر کی جاتی ہیں احکامات موجود ہیں کہ انسپکٹر کی سطح کا پولس آفیسر ایس ایچ او لگایا جائے مگر جنوبی پنجاب کے تھانے ایسے سب انسپکٹروں سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ طے شدہ فارمولا ہے کہ کسی بھی ضلعی پولیس سربراہ بارے معلومات درکار ہوں کہ وہ ایماندار ہے یا ڈنڈی مار، میرٹ پر چلتا ہے یا سفارش پر، اسے مال و دولت عزیز ہے یا کہ اپنا وقار، تو صرف یہ معلومات کافی ہیں ، مذکورہ ضلعی سربراہ نے ایس ایچ او حضرات کی تعیناتیاں کس میرٹ پر کی ہیں، سب کچھ آشکار ہو جائے گا۔ 
پولیس کے حالات دگرگوں ہونے کی وجہ سے لودھراں پولیس نے منہ پر نقاب ڈال کر 15 ڈاکو میڈیا کے سامنے پیش تو کر دئیے مگر کسی بھی ڈاکو کا نام پتہ اور واردات کی تفصیل بار بار پوچھنے پر بھی نہ بتائی گئی۔ ان ڈاکووں میں ایک ان کا سرغنہ نعیم ارائیں بھی تھا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اتنا سفاک ہے کہ اس نے اپنے دو سگے چچا سمیت 8 سے زائد قریبی رشتے داروں کے گھروں میں بھی ڈکیتیاں کرائی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی ڈیل تقریباً ایک کروڑ میں ہوئی اور اس رقم کے علاوہ لوٹا ہوا مال بھی ڈکیتیوں کے متاثرین کو ملنے کی بجائے بندر بانٹ کی نذر ہو گیا۔ سننے میں آیا ہے کہ اب نعیم ارائیں رہائی پا چکا ہے اور اسے ملک سے باہر جا چکا ہے۔
پہلے تو ایس ایچ او حضرات ہی گرفتاریاں کرتے اور نجی ٹارچر سیل چلاتے تھے مگر جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں اور مظفرگڑھ میں تو کانسٹیبل حضرات کے بھی نجی ٹارچر سیل ہیں۔ لودھراں میں کانسٹیبل گینگ کا سرغنہ زاہد چاچڑ نامی ایک کانسٹیبل اوراس کے گینگ میں چار سپاہی شہریوں کو اغوا کرکے نجی ٹارچر سیل میں ڈال کرمال بناتے ہیں۔ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر زخمی ہونے والا شہزاد عرف منا 42 دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہ کر دم توڑ گیا۔ مقتول کو مزاحمت پر تین فائر لگے مگر اس نے ڈاکووں سے مقابلہ جاری رکھا جس پر لوگ اکٹھے ہوئے اور ڈاکو موقع پر ہی گرفتار  کر لیا گیا۔اس کے باوجود ملزم ڈیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس نے نامزد پرچہ درج کرنے کے بجائے گرفتار ڈاکوؤں کو نامعلوم کے کھاتے میں ڈال دیا۔ 
کہا جاتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے بعض اضلاع میں تعیناتیوں پر بولیاں لگتی رہی ہیں ۔ پھر ایک طاقتور صاحبزادہ فیصلے کرنے لگا۔ آج لودھراں کے صدر سرکل میں پولیس راج کی بجائے ڈاکو راج ہے اور چند ہی دنوں میں پے در پے ڈکیتیوں پر ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب نوٹس بھی لے چکے ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ صدر سرکل کے ڈی ایس پی بھی ’’مضبوط روابط‘‘ رکھنے کے ماہر ہیں۔ یاد رہے کہ لودھراں وزیر مملکت برائے داخلہ عبدالرحمن خان کانجو کا آبائی ضلع ہے اور ضلع بھر میں جرائم میں ان کا حلقہ سرفہرست ہے۔ میں ذاتی طور پر رکن صوبائی اسمبلی صدیق خان بلوچ کے طرز سیاست سے اختلاف رکھ سکتا ہوں مگر ان کے حلقہ انتخاب میں کبھی بھی پولیس کھل کر اس طرح نہیں کھیل سکی جس طرح دیگر انتخابی حلقوں میں کھل کھیلتی ہے۔ 
 دل کھول کر پیسے خرچ کرنے والے جہانگیر ترین نے سیاست سے بیزار ہو کر آجکل ریکوری مہم شروع کر رکھی ہے اور حال ہی میں اپنے ایک پرانے ساتھی سے کسی گستاخی پر ناراض ہو کر پولیس کے ذریعے دس دنوں میں 2 کروڑ چالیس لاکھ کی ریکوری کی ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ سیاست سے عملاً لاتعلق ہونے کے باوجود جہاں وہ حکم چلانا چاہیں آج بھی چلا لیتے ہیں۔

مزیدخبریں