ہم اور ہمارا طبقاتی نظام معاشرے کا بہت اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اس مسئلے کے پسِ آئینہ جو عوامل کارفرما ہیں ا±ن سے ہر باشعور اِنسان آگاہ ہے مگر ایسی آگہی اور ادراک کا کیا کرنا کہ اس کیلئے کارگر حکمتِ عملی ہی نہ بنائی جائے اور اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کر لے تو اسے ناکام کرنے میں بھرپور طاقت کا استعمال کیا جائے۔ہمارے معاشرے میں 20% آبادی ایسی ہے جن کے پاس 80% دولت ہے اور 80% آبادی ایسی ہے جن کے پاس20% دولت ہے۔ دولت کی اس غیر مساوی تقسیم نے ہمارے معاشرے میں مسائل بھی تقسیم کر دئیے ہیں۔ ان مسائل کی تقسیم بھی دولت کی تقسیم کے مساوی ہے۔ہر انسان اپنی سی کوشش کرکے معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کی تگ و دو کرتا ہے۔ اپنے بچوں کیلئے اچھی تربیت گاہیں تلاش کرتا ،اپنے اسلاف کی روایات ان تک پہنچاتا ہے اور انہیں معاشرے کا ایک باعزت شہری بنانے کی جستجو میں رہتا ہے مگر یہ طبقاتی نظام اسے کہیں نہ کہیں اٹھا کر کسی گڑھے میں پھینک دیتا ہے یا مفلسی کی زمین پہ پٹخ دیتا ہے۔کسی ایک کمیونٹی کو ہی دیکھ لیں جہاں پر فلیٹس میں ایک ایک خاندن اپنے والدین کے ساتھ رہتا ہے،کوٹھیاں بھی ہیں جہاں پر پورچ میں تین تین گاڑیاں اور ایک ایک چوکیدار کھڑا ہے اور اس کوٹھی میں صرف ایک خاندان رہتا ہے مگر ایک غریب عورت اور مرد یا چھوٹی عمر کی بچی اور بچہ ان کی خدمت کیلئے مامورہوتا ہے۔ اسی کمیونٹی میں دو کمروں کے مکان میں دو خاندان گزر بسر کرتے ہیں جہاں ایک چارپائی پر چار بچے اور فرش پر چٹائی بچھا کر ماں باپ سونے کیلئے جگہ بناتے ہیں اور اس سے ذرا نیچے آئیں تو ایک جھگیوں میں بسنے والا طبقہ ہے جو اس کمیونٹی میں ہونے والی تعمیرات میں مزدوری کا کام کرتا ہے اوران کے چھ سال کے بچے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالتے اورشام ہونے تک ماں باپ اور روٹی کا انتظار کرتے ہیں۔ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلِہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر جو فرمایا کہ تم سب برابر ہو آج عربی کو عجمی پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اور اگر کسی کو فوقیت حاصل ہے تو وہ ہے اس کا تقویٰ،ان کا کردار اور اعمال۔ مگر آج کیا ہو رہا ہے جب ایک گھر سے تین تین کاریں نکلتی ہیں تو کچی اینٹوں کے مکان میں بسنے والے شہری کھڑکیاں کھول کھول کے ان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔گلے میں بستے ڈال کر غریبوں کے بچے جب کسی گورنمنٹ سکول کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو انکی نگاہیں ان بڑی گاڑیوں کے دروازوں پر لگی ہوتی ہیں جہاں سے ان جیسے بچے کھلکھلاتے ہوئے شاندار بستے، ٹفن بکس اور پانی کی قیمتی بوتل ہاتھ میں پکڑ کر اترتے ہیں اور گاڑی کا ڈرائیور یا گن مین انہیںسکول کے گیٹ تک چھوڑ کے آتا ہے۔ ایسے بچے رات کو سونے سے پہلے اپنی ماں سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہونگے کہ ماں ہمارے پاس بڑی بڑی گاڑیاںکیوں نہیں ہیں؟ ہمیں پیدل سکول جاتے ہوئے اور سڑک پار کرتے جب ڈر لگتا ہے تو اس وقت ہمارے ساتھ کوئی کیوں نہیں ہوتا؟ ماں کہتی ہے غریبوں کو ایسے سوال کرنے کی اجازت نہیں ہے میرے بچے۔ تو وہی معصوم بچہ بڑی معصومیت سے کہتا ہے غریب کیا ہوتا ہے ماں؟
اب مڈل کلاس یا لوئر کلاس کے خاندانوں میں پلنے بڑھنے والے بچوں کو کیسے سمجھایا جائے۔ انکے سوال صحیح ہوتے ہیں مگر جواب نہیں ہوتا۔امیر طبقہ معاشرے کی سب سے بہترین سہولت سے مزین زندگی گزارتا ہے۔ ہسپتال،تعلیم،سفری سہولت، بہترین سے بہترین انکے اختیار میں ہوتی ہے۔ درمیانے طبقے کے لوگ ہونے یا نہ ہونے کے گرداب میں پھنسے رہتے ہیں دوسروں کا منہ لال دیکھ کر اپنا آپ تھپڑ مارکر لال کرنے کی کوشش میں تماشہ بھی بن جاتے ہیں، شرمندہ بھی ہوتے ہیں اور اپنی محدود حد تک اوڑھنے والی چادر کھینچ کر کبھی پاﺅں ننگے کر لیتے ہیں اور کبھی سر۔ اچھے پرائیویٹ سکول میں ڈالنے کی خواہش میں اپنے بجٹ کے ہاتھوں پریشان ہو کر آئے روز گھروں میں جھگڑے کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام دیتے ہیں، امراءکو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے بل بوتے پر اپنے جسم کا کینسر زدہ خون بھی بدلوا لیتے ہیں مگر درمیانے طبقے کے لوگ کینسرکے علاج کیلئے گھر بھی گروی رکھوا کر زندگی نہیں خرید سکتے۔ یہاں پر غریب طبقے کا تو ذکر ہی پانی کے بلبلے کی مانند ہے۔ ا±ن کے وجود کو تو کوئی اپنے نوکر کی حیثیت سے بڑھ کر دیکھتا ہی نہیں۔ ا±نکے جسم میں کینسر پل رہا ہو تو بھی وہ طبی امداد کے بنا اپنی زندگی جی لیتے ہیں۔مگر کیا یہ طبقاتی نظام کسی کو ورثے میں ملتا ہے یا معاشرے کی پیداوار گردانا جاتا ہے۔ اس کیلئے اگر حکومت اپنی حکمت عملی پر غور کرے، ہر طرف سکول نصاب ہسپتال اور روزگار کا ایک معیار بنا دیا جائے تو ہمارے معاشرے کا بگاڑ بہت حد تک ختم ہو جائے گا۔ اسی مساوی تقسیم کیلئے افواجِ پاکستان کی حکمتِ عملی بہترین ہے۔
آرمی پبلک سکولز میں سپاہی سے لے کر جنرلز تک کے بچے ایک ہی نصاب پڑھتے ہیں۔ سی ایم ایچ میں سب کا ایک جیسا علاج سارے ڈاکٹرز اور سہولیات کا حصول ایک بے مثل سچائی ہے۔
اس طبقاتی تقسیم سے نکلنے کیلئے حکومت کی پالیسیاں دوبارہ سے زیرِ غور لائی جائیں اور معاشرے میں ہر فرد بچے بوڑھے عورت اور طبقوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر لا کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کیلئے اعلان کر دیا جائے کہ آج کے بعد مزدور کے بچے اور امیر کے بچے کے علاج، تعلیم، اور روزگار کیلئے بس ایک ہی راستہ ہے ،ایک ہی اصول ہے، ایک ہی نظام ہے۔
جواب دیجئے صاحب
Sep 15, 2023