کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری

ہم نے اہل علم سے سناہے کہ انگریزی فوج نے 1857ءکی بجائے 1803ءمیں دہلی کے تخت پرقبضہ کیا تھا۔1857ءتو اس قبضے کا باقاعدہ اعلان تھا۔دیکھا جائے تواس دورمیں بھی مسلم اقتدار کو دیگرمسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کے آکٹوپس نے بھی بری طرح جکڑرکھاتھا۔ شاہ عالم ثانی نے روہیلہ افغانوں کے سردار نجیب الدولہ کے پوتے غلام قادر روہیلہ کو ایک جنگ میں گرفتار کیا اوراپنے ساتھ دہلی کے لال قلعے میں لے آیا،پیروں میں گھنگھرو باندھ کر بادشاہ اوردرباریوں کوناچ کردکھابنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔اپنے دشمنوں کوسزا دینے کی یہ ایک بھیانک مثال تھی۔ غلام قادر کسی طرح فرار ہوکراپنے قبیلے میں واپس جاپہنچا،وہاں سے دوہزارکا لشکرلے کرآیااور قلعہ معلی پر چڑھ دوڑا۔ اس کے جبر و تشدد کے نتیجے میں شاہ عالم ثانی کے اندھا ہونے کے بعد اورنگ زیب عالم گیر کے جانشینوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوگئی۔اس نے اسی پراکتفا نہیں کیا بلکہ محل میں موجود مغل شہزادیوں کو بلاکررقص کرنے کا حکم دیا۔باعترت خواتین رقص کررہی تھیں،روہیلہ تخت پراپنے سرہانے خنجر رکھ کرسوگیا۔تھوڑی دیربعداٹھا،اور کہنے لگا”تمھیں معلوم ہے ؟میں اس لیے سویاتھا کہ تم مغلوں میں کوئی ایک غیرت مندتو ایساہوگاجومیرا ہی خنجراٹھاکرمیرے سینے میں گھونپ دے گا۔لیکن افسوس!!“
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھرسے بادشاہ مرہٹوں کے زیر حفاظت تھا۔ مرہٹے بادشاہ کے باورچی خانے کا خرچ اٹھانے میں بھی ناکام ہوگئے تھے۔ سکھوں، جاٹوں، مرہٹوں اور روہیلوں کے باہمی جھگڑوں میں مرکز گریز قوتوں کو توانائی مل رہی تھی۔ اس صورت حال سے نسبتاً دانا اور زیرک فریق انگریز نے فائدہ اٹھایا۔ انگریزی افواج مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی میں داخل ہوئیں تو قدیم عزت و شان کا وہ مجسمہ ضعف پیری، بے بصارتی، ناداری، اور زوال مرتبت و بے اختیاری کے جاں کاہ شعور کے ساتھ ایک چھوٹے سے بوسیدہ شامیانے کے نیچے ایک عبرت ناک منظر پیش کررہا تھا۔ شاہ عالم ثانی کے ساتھ اس کے نمک خواروں کا یہ سلوک ایک تازیانے سے کم نہ تھا۔ غلام قادر روہیلہ ظالم، جفا جو اور کینہ پرور سہی لیکن سب سے مسلمہ حقیقت مکافات عمل بھی ہے۔دہلی میں مغلیہ حکومت کا یہ تاج دار علامتی طور پر ہی سہی، مرکزیت کی نشانی تھا، انگریز عیاری کے ساتھ مغل بادشاہ کی شان و شوکت کو ختم کرکے انھیں تاش کے بادشاہ سے بھی زیادہ بے ضرر بنانا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ برصغیر کی صنعت و حرفت کو تباہ کرکے اسے یورپی مصنوعات کی منڈی بنانا بھی مقصود تھا۔ خلیج بنگال کے راستے برطانوی تہذیب کی اس طرح آمد کسی انقلاب سے کم نہ تھی۔ یہ ایسا خاموش انقلاب تھا جس سے شاہ عالم ثانی بے خبر تھا یا مجبور، لیکن اس کی حکمت عملی نے ہندستان کو نقصان پہنچایا۔ شاہ عالم ثانی کے فرزند اکبر شاہ ثانی اور پھر بہادر شاہ ظفر مجبور اور لاچار تھے۔ ان کے لےے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عطا کردہ وظیفے پر اپنے محلات میں آرام دہ زندگی گزاریں۔ گرد و نواح کے مسائل سے آنکھیں چرا لینے میںہی عافیت تھی۔ شاہ عالم ثانی کے دور اقتدارکے کئی سال اسی ”خوش حال اسیری “ میں گزرے۔ دہلی کے لال قلعے سے باہر کے تمام امور بشمول دفاع، کمپنی کے ریذیڈنٹ کے ذمہ تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں طاقت کا سرچشمہ تھا۔ ریذیڈنٹ اپنی نشست و برخاست کے لحاظ سے کسی آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار سے کم نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ کے حضور کورنش بجالانے کے فرض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ وہ بڑے مودب انداز میں چھوٹے چھوٹے حکومتی معاملات میں دخل دینے کا مجاز تھا۔ بادشاہ اس کے سامنے بے اختیار تھا۔بہادر شاہ ظفر نے اپنے دور میں قلعے کے اندر مغلیہ عہد کی معاشرتی روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کی، لیکن اس ماحول میں زندگی کی حقیقی سچائیوں کی طرف کم دھیان دیا گیا، امرا اور نوابین کی زندگی کا عمومی رجحان عیش و عشرت اور لذت پسندی کی طرف رہا۔ بہ ظاہر یہ زندگی رنگینی و پرکاری سے آراستہ لگتی ہے لیکن اس کے بطن سے ایک انتہا پسندی جنم لے رہی تھی۔ جس کا کسی کو بھی ادراک نہ ہوسکا۔ لوگ سنگین معاملات سے چشم پوشی کرتے تھے۔یہ تہذیب ایک ایسے چراغ کی مانند تھی جس کی لو بجھنے سے پہلے ذرا بھڑکتی ہے۔ شاہ عالم ثانی سے بہادر شاہ ظفر کے عہد تک مغلیہ خاندان کا اثرو رسوخ آہستہ آہستہ ختم ہورہا تھا۔ جب قومی حمیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو امرا کا طبقہ قومی ہمدردی سے لاپروائی برتنے لگتا ہے،اس کے سامنے ایک ہی مقصد ہوتاہے کہ کسی نہ کسی طرح بہتی ہوئی گنگا میں ہاتھ دھولیے جائیں۔آپس کے جھگڑوں اور انارکی کی فضامیں عوام الناس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا وہ بیچارے کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بدتمیزہواﺅں کے آسرے پرہوتے ہیں ،ہرکوئی انھیں لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ تاریخ کاشعور حاصل کرنااس لیے بھی ضروری ہے کہ قوموں کے عروج وزوال کی کہانیوں پڑھنے سے سبق حاصل ہوتا ہے،افسوس کہ ہم اس سے کچھ بھی حاصل نہ کیا۔اب ایک بار پھرپرانے شکاری نیا جال لے کرآئے ہیں،بیچارے پرندوں کا قصور یہی ہوتا ہے کہ وہ کمزورہوتے ہیں اس لیے مردار خور گِدھوں کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ہندستان کی مسلم قوم نے سات سوسالہ اقتدارمیں دنیاکو اردو،تاج محل اور پاکستان کی شکل میں تین تحفے دئیے،افسوس کہ ان تینوں کی ناقدری ہوئی اور اجداد کی دی ہوئی ان نشانیوں کو انھی کے لہو میں نہلا کر ان کی اصل شناخت ختم کردی گئی۔افسوس کہ آج بھی وہی صورت حال ہے،باقی صدیقی کا ایک شعر ہمارے حالات پر صادق آتا ہے:
کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریاہم کو اس مملکت کے قیام کامقصد مطلق العنان بادشاہت یا مادرپدرآزاد ریاست نہ تھا۔ہمارے بزرگ ایسا ملک چاہتے تھے جوجدید دنیا میں مساوات اورجمہوریت کی بنیادپرایک مثال بنے،افسوس کہ تاریکیوں نے نجانے کتنی نسلوں کے خوابوں کوتعبیرسے محروم کردیا۔خبردار! تاریخ کا پہیہ بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن