بلال محمود سلہری: پُر امن بقائے باہمی کا علمبردار

Sep 15, 2023

عاطف خالد بٹ

بلال محمود سلہری فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالا میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ وہی شہر ہے جہاں اب سے تقریباً ایک ماہ پہلے مسیحیوں کی عبادت گاہوں اور مکانات کو توہینِ مذہب کے الزام کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن مشتعل ہجوم کے سامنے کھڑا ہو کر جو شخص یہ سمجھانے کی کوشش کررہا تھا کہ الزام ثابت ہونے پر مجرم کو سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کو ہے وہ ایس پی بلال سلہری ہی تھا۔ مذہب کے نام پر بھڑکے ہوئے لوگوں کو کچھ سمجھانا اتنا آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ اپنی جان داو¿ پر لگانے والی بات ہے کیونکہ اس مجمع میں سے کون کیا کر گزرے یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس سب کے باوجود بلال نے نہ صرف ایک ذمہ دار پولیس افسر ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے قانون کا نفاذ یقینی بنانے کی کوشش کی بلکہ انھوں نے پاکستان کے ایک امن پسند شہری ہونے کی حیثیت سے لوگوں کو یہ سمجھانا بھی ضروری سمجھا کہ وہ کسی کی جان اور مال کو نقصان نہ پہنچائیں اور معاملات کو قانون کے مطابق چلنے دیں۔
جڑانوالا میں اس روز جو کچھ ہوا اس سے پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی بہت سے لوگ واقف ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس دن شر پسندوں نے آخری حد تک جا کر جنونیت کا اظہار کیا۔ شہر بھر میں تیئس گرجا گھروں اور بہت سے مکانات کو نقصان پہنچا۔ یہ یقینا بہت افسوس ناک اور قابلِ مذمت واقعہ ہے لیکن اس سے جڑا ہوا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس واقعے کی صرف غیر مسلم اقلیتوں نے ہی نہیں بلکہ مسلم اکثریت نے بھی شدید مذمت کی اور ملک بھر میں مسیحیوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی و یکجہتی کے مختلف مظاہر دکھائی دیے۔ اس حوالے سے علمائے کرام نے بھی مثبت کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف اس واقعے میں ملوث افراد کے عمل کو غلط اور خلافِ اسلام قرار دیا بلکہ انھوں نے جنابِ رسالت مآبﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ بالعموم تمام غیر مسلم اقلیتوں اور بالخصوص مسیحیوں کی جان اور مال کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا پر بھی پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں جڑانوالا سانحے کی شدید مذمت کی۔
اسی سلسلے سے جڑی ہوئی ایک نہایت غیر معمولی مثال یہ ہے کہ جڑانوالا میں ایک مسجد کی انتظامیہ نے مسیحی کمیونٹی سے کہا کہ اپنی عبادت کے لیے مسجد استعمال کرسکتے ہیں۔ خود مسیحی بھی اس بات پر حیران تھے کہ مسجد کی انتظامیہ نے انھیں یہ پیشکش کی ہے کہ وہ عبادت کے لیے مسجد آسکتے ہیں۔ بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے مسیحی کمیونٹی کے ایک نمائندے نے جب یہ بات بتائی تو اس وقت وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پائے اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ جہاں جڑانوالا میں مسیحی اقلیت پر شر پسندوں کی طرف سے ڈھایا گیا ظلم و ستم ملک کی بدنامی کا باعث بنا وہیں اس واقعے کی غیر مشروط مذمت، مسیحیوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی و یکجہتی اور عبادت کے لیے انھیں مسجد میں آنے کی پیشکش کرنے جیسے واقعات نے اس امید کو جلا بخشی کہ پاکستان بطور ملک اور بحیثیت معاشرہ شر پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بن سکتا بلکہ اس میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو مذہب کے نام پر پھیلائی جانے والی نفرت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہ مختلف عقائد و نظریات کے حاملین کے مابین محبت اور ایثار کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
مذکورہ واقعے کے بعد جڑانوالا پولیس کے سربراہ بلال سلہری کی طرف سے جو اقدامات کیے گئے وہ بھی نہ صرف غیر معمولی ہیں بلکہ امید ہے کہ وہ ایک نئی مثبت روایت کو جنم دینے کا باعث بھی بنیں گے۔ اس سلسلے میں یہ اقدامات تو شاید معمول کی کارروائی سمجھیں جائیں گے کہ 16 اگست کو جب سے یہ واقعہ پیش آیا اسی رات مسیحی کمیونٹی کے افراد کی رہائش کے لیے دانش سکول جڑانوالا میں کیمپ قائم کیا گیا اور اگلے روز پولیس نے ہی ان افراد کے لیے کھانے وغیرہ کا انتظام کیا اور ساتھ ہی ایک میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا۔ لیکن اس کے بعد بین المذاہب ہم آہنگی اور پُر امن بقائے باہمی کے تصور کو فروغ دینے کے لیے ایس پی بلال سلہری نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران جو کاوشیں کی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ گرجا گھروں میں مسلم علماءکو لے کر جانا اور مسیحی نمائندوں سے ان کی ملاقاتوں کا اہتمام کرنا اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی ہے۔ علاوہ ازیں، بلال خود ہر جمعہ مساجد میں جا کر وہاں موجود افراد سے بقائے باہمی کی اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان صرف ریاست کے طور پر ہی نہیں بلکہ معاشرے کی حیثیت سے بھی کئی سنگین قسم کے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور ان مسائل کو حل کرنا نہ تو کوئی آسان کام ہے اور نہ ہی کوئی ایسے اقدامات کرنا ممکن ہے جو جلد ہی ہمیں ان مسائل سے نکال دیں۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کرنا پڑتے ہیں تاکہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روک کر بہتری کی بنیاد رکھی جاسکے، لہٰذا اس صورتحال ہی میں ہمیں بلال محمود سلہری جیسے پڑھے لکھے، باشعور اور ہمدرد افراد کی ضرورت ہے جو مسائل کی نوعیت کو بھی سمجھتے ہوں اور ملک اور معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے واقعی کچھ کرنے کا سچا جذبہ بھی رکھتے ہوں۔ پاکستان میں ہم اس وقت یاسیت اور ناامیدی کے جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں بلال جیسے لوگوں کی موجودگی کسی نعمت سے کم نہیں اور ہمیں ایسے افراد کی واقعی قدر کرنی چاہیے جو اس معاشرے کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں