ہجرت مدینہ کی غرض غایت اور امن و آشتی کی سحر

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی
 بیت عقبہ کے بعد سے ہجرت کا حکم نامہ جاری ہوچکا تھا، آپ نے مہاجرین مکہ کو خوشی کی نوید سنادی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعائیں قبول کرلیں اب تم ایسی جگہ پر اپنا مسکن کرنے والے ہو جہاں کے باسی تمہاری آمد کی خبر سنتے ہی اپنی راہوں کو مزین کرنے میں لگ گئے ہیں وہ تم سے ملنے کیلئے بے قرار ہیں، ان کی نظریں پتھراچکی ہیں تمہاری راہ دیکھتے دیکھتے۔جہاں تم امن، چین اور سکون کی زندگی بسرکرو گے، مشکلات،دکھ درد، بھوک کی اذیتیں برداشت کرتے کرتے ان کے صبر کی انتہا ہوچکی تھی۔ نویدسحر، خوشی کی لہر کی طرح اپنے وجود کو مزید اپنے انصار بھائیوں سے دوری برداشت کرنے سے قاصر تھی بس حضور کی طرف نگاہیں جھکی تھیں کہ کب فیصلہ ہوجائے اور حکم کی تعمیل میں کہیں ہم سے تاخیر نہ ہوجائے اچانک مکہ مکرمہ کی گلیوں میں ہجرت ہجرت کی صدائیں گونجنے لگیں۔ آج خون کے رشتوں سے پیارے دینی بھائیوں کی دوری کو سہنا برداشت سے باہر تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حضرت عامر بن ربیعہ الغزی، ان کی زوجہ لیلیٰؓ بنت ابی حشمہ، حضرت عمار بن یاسرؓ اور دیگر کا قافلہ اپنے بھائیوں کی پکار پر لبیک کی صدائیں بلند کیے، حضور کے حکم کی تعمیل کو بے سروسامان، فدائے اسلام رواں دواں تھے،ادھر انصار صبح صادق سے لے کر رات کے پچھلے پہر تک ان کی آمد کے منتظر تھے کہ کب یہ انتظار کی گھڑی ختم ہوگی اور دوریاں قربتوں میں تبدیل ہوں گی۔
حضور نے ہجرت کے روحانی منظر کا واضح مفہوم ان لفظوں میں بیان فرمادیا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق اجر ملتا ہے تو جس شخص نے اللہ اور رسول اللہ کی طرف ہجرت کی یعنی اللہ اور رسولکی رضا جوئی اور اطاعت کے سواہجرت کا اور کوئی باعث نہیں تھا تو اس کی ہجرت درحقیقت اللہ اور اس کے رسول ہی کی طرف ہوئی جو کسی دنیاوی فائدہ کیلئے عورت سے نکاح کرنے کی خاطر مہاجر بنا تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کیلئے نہ ہوگی ۔
نقل مکانی یا ہجرت کرنا ایک فطری عمل ہے لیکن یہ ہجرت کسی مقصد کی بنیاد پر عمل میں آئی ہے یہ بات زیر بحث ہے کہ آیا ہجرت کرنے والا اس خطے، علاقے یا جگہ پر غیر محفوظ ہے یا معاشی پریشانی لاحق ہے یا اقلیت کی وجہ سے ظلم وستم سے نجات چاہتا ہے یا وہاں مہلک مرض سے جان ضائع ہونے کا ڈر ہے یا ہجرت کی دوسری صورت حدیث بالا میں واضح بیان کردی کیونکہ انسانوں کی تخلیق سے لے کر اکیسویں صدی تک کے سفر میں انسان خانہ بدوش ہی رہا ہے اس نے جہاں سہولتیں، آسائشیں اور وسائل دیکھے وہیں کا رخ کردیا، یہ بھی تاریخ کا ایک تلخ مشاہدہ رہا ہے کہ یہ ہجرتیں کہیں انسان کیلئے مفید رہیں تو کہیں انہی انسانوں کے نقل مکانی کرنے سے جنگوں نے جنم لیا۔اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کی کامل رہنمائی کیلئے اپنے آخری نبی حضرت محمد رسول اللہ کو اس دنیا میں مبعوث فرمایا۔آپ نے رب العالمین کی توحید اوراپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلایا توان میں سے کچھ لوگوں نے تو ایک ہی آواز پر لبیک کہہ دیا جبکہ کچھ لوگ حضور کے جانی دشمن بن گئے،حضور نے اپنی حیات طیبہ کے 53سال مکہ مکرمہ میں او ہجرت کے بعد 10سال مدینہ منورہ میں گزارے۔آپ کو اسلام کی دعوت وتبلیغ سے روکنے کے لیے آپ کے وطن عزیز مکہ مکرمہ میں بہت ستایا گیا،حتی کہ آپ کے نرم ونازک بدن کوپتھروں کے نشانہ بناکر لہولہان کیا گیا،آپ کو قیدوبند کی صعوبتیں دی گئیں،حتیٰ کہ آپ کے جسم اطہر سے اتنا خون نکلا کہ آپ کے نعلین مبارک خون کی وجہ سے پاو¿ں میں جم گئے، آپ خود فرماتے ہیں مجھ سے پہلے جتنے انبیائے کرام گزرے ہیں انہوں نے راہِ خدا میں جتنی تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کیں‘ان سے کئی گنا زیادہ میں نے تنہا برداشت کی ہیں (بخاری)گویا حضور کو ہر موڑ اور ہرمحاذ پر ستایاگیا، کفارومشرکین آپ کوہرقسم کی تکلیف دیتے رہے‘ جن پر آپ صبروتحمل کا مظاہرہ فرماتے رہے،لیکن جب کفارِ مکہ آپ کو دعوتِ اسلام سے روکنے میں ناکام ثابت ہوئے اورایمان واسلام کا دائرہ کارزیادہ وسیع ہونے لگا تو سرداران کفار نے آپ کے قتل کی گھناو¿نی سازش تیار کی ،جب ظلم تجاوزکرچکاتواللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت جبرئیلؑ حکم ربی لیکر حاضر ہوئے اوراس طرح آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا۔
جب مکہ مکرمہ سے اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے اپنے اہل وعیال، خویش و اقارب اور گھر بار چھوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے تونبی کریم نے دنیائے کائنات میں محبت و مو¿دت کی دعوت کو عام کیا،،مشرکین مکہ کاظلم وستم بڑھا تو اہل ایمان بارگاہ رسالت سے اجازت پاکر مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرگئے۔اللہ کے حکم سے سیدنا صدیق اکبرؓ ہجرت میںساتھ تھے ،کفار کا سخت پہرا تھا، آپ حضرت سیدناعلیؓ کو اپنے بستر پر لٹاکر سورہ یٰسین کی آیات تلاوت کرتے ہوئے ا±ن کفارکے سروں پر مٹی ڈال کر کاشانہ اقدس سے نکل گئے اورمکہ مکرمہ کی دائیں جانب بعض روایات کے مطابق تین میل پر واقع غار ثور میں قیام فرما یا(سیر ابن ہشام، ص193)راستے میں سیدناصدیق ِاکبرؓبھی حضور کے دائیں بائیں اور کبھی آگے پیچھے چلتے کہ کہیں کوئی گھات لگانے والا نقصان نہ پہنچادے،چلتے ہو ئے جب پاو¿ں مبارک پتھر چبھنے لگے توسیدنا صدیق اکبرؓنے آپ کندھوں پرا±ٹھالیا اورغارتک لے گئے،پہلے خود داخل ہوئے غار کی صفائی کی، تاکہ کوئی موذی جانورتکلیف نہ پہنچائے،غارثور میں حضرت سیدنا عبداللہ بن ابوبکرؓ، حضرت سیدہ اسمائؓ اورحضرت سیدنا عامر بن فہیرہؓ خبریں پہنچانے،کھانا کھلانے اور دوود ھ پلانے کی خدمت بجا لاتے رہے(سیر ابن ہشام، ص194)کفار آپ کی تلاش میں غار ثو پر بھی پہنچے مگراللہ کریم نے محفوظ رکھاجس کا بیان سورہ تو بہ میں ہے: ترجمہ:بیشک اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہواصرف دو جان سے جب وہ دونوں غار میں تھے جب اپنے یار سے فرماتے تھے غم نہ کھا بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے اس پر اپنا سکینہ (اطمینان) اتارا (التوبہ:40) طویل مصائب برداشت کرنے اور غار ثور میں تین دن قیام کے بعدبالآخر آپ اپنے صحابہ کے ہمراہ مدینہ منورہ پہنچے۔آپ کے جانثار ساتھیوں کی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے اسلام پر بہت سے نتائج و اثرات مرتب ہوئے، جانی دشمن باہم شیر و شکر ہو گئے اورہر طرف امن،سلامتی کانور ہی نور پھیل گیا۔

ای پیپر دی نیشن