نواسہ رسولﷺ فخر سقراط حضرت امام حسنؓ

آغا سید حامد علی شاہ موسوی 
 نواسہ رسول لخت دل علیؓ و بتولؓ خلیفة المسلمین حضرت امام حسن مجتبیؓ28صفر المظفر 50ھ کو درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ شاہ عبد العزےز محدث دہلوی رقم طراز ہےں کہ امام حسنؓ کی شہادت کا سبب آپ کی بیوی جعدہ بنت اشعث کی جانب سے دیا جانے والا زہر تھا۔ جسے لالچ دےا گےا تھا کہ اس کا نکاح یزید سے کرادےا جائے گا۔ ےہ زہر اس قدر سخت تھا کہ جگر اور انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نکلتے تھے ۔ امام حسن فرماتے کہ مجھے کئی بار زہر دیا گےا ہے لےکن اس قدر سخت زہر کبھی نہےں دےا گےا۔ (سر الشہادتین )ےہ زہر روم سے منگواےا گےا تھا جسے زہر ہلاہل کہا جاتا ہے۔
امام حسنؓ 15رمضان 3 ہجری کی شب کو مدینہ منورہ میں سورہ کوثر کی پہلی تفسےربن کر صحن علی المرتضیؓ و خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ مےں تشرےف لائے ۔ رسولِ خدا کےلئے امام حسنؓ کی آمد بہت بڑی خوشی تھی کےونکہ جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے رحلت فرماتے رہے تو مشرکین طعنے دیتے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچتا۔ مشرکےن کوجواب کے لیے قرآن مجید میں سورة الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں ہوںگے بلکہ آپ کا دشمن ہوگا ۔دنےا مےں ہر انسان کی نسل اس کے بےٹے سے ہے لےکن کائنات کی اشرف ترےن ہستی سرور کونےن حضرت محمد مصطفی کی نسل کا ذرےعہ ان کی بےٹی حضرت فاطمہ زہراؓ ےعنی امام حسنؓ و حسےنؓ کو قرار دےا گےا۔ حضرت عمر ؓ سے ےہ بھی رواےت ہے کہ رسول اللہ نے فرماےا کہ قےامت کے دن ہر نسب منقطع ہو جائے گا سوائے مےرے نسب (اولاد فاطمہ )اور رشتہ کے (حاکم المستدرک ،طبرانی المعجم الکبےر،احمد بن حنبل فضائل الصحابہ،شوکانی )۔ نصاری نجران کے ساتھ مباہلہ کےلئے بھی رسول خدا امام حسنؓ و حسےنؓ کو اپنے فرزندان کے طور پر ساتھ لے کر گئے جس پر قرآن کی آےت گواہ ہے ۔
بحارالانور میںہے کہ جب امام حسنؓ سرورکائنات کی خدمت میں لائے گئے تو آنحضرت نے نوزائیدہ بچے کو آغوش میں لے کر پیار کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں ا قامت فرمانے کے بعد اپنی زبان ان کے منہ میں دیدی، امام حسنؓ اسے چوسنے لگے اس کے بعدآپ نے دعاکی خدایا اس کو اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔
شہد خوار لعابِ زبان نبی     
امام حسن ؓ کی ولادت کے ساتویں دن سرکارکائنات نے خود اپنے دست مبارک سے عقیقہ فرمایا اور بالوں کو منڈوا کر اس کے ہم وزن چاندی تصدق کی (اسدالغابة)۔ علامہ کمال الدین کا بیان ہے کہ عقیقہ کے سلسلے میں دنبہ ذبح کیا گیاتھا امام شافعی کا کہنا ہے کہ آنحضرت نے امام حسنؓ کاعقیقہ کرکے اس کے سنت ہونے کی دائمی بنیاد ڈل دی ۔
رسول خدا نے جنت کے سر دار کے کان میں ذان و اقامت کہی کہ جبرائےل امےں وحی لے کر پیغمبرکی خدمت میں نازل ہوئے اور فرمایا۔آپ کا پروردگار آپ کو سلام کہتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ علیؓ آپ کیلئے ایسے ہی ہیں جیسے ہارون موسیٰؓ کیلئے تھے لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔آپ اپنے اس فرزند کا نام ہارون کے فرزند کے نام پر ’شبر‘رکھئے ۔ پیغمبر نے فرمایا کہ میری زبان تو عربی ہے۔ جبرائیل نے کہا آپ حسن ؓ نام رکھئے۔پیغمبر نے ایسا ہی کیا۔ (تاریخ خمیس) ماہرےن علم الانساب بےان کرتے ہےں کہ خداوند عالم نے خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کے دونوں شاہزادوں کانام انظارعالم سے پوشیدہ رکھا تھا یعنی ان سے پہلے حسن وحسین نام سے کوئی موسوم نہیں ہوا تھا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم کے ساتھ امام حسنؓ سے زیادہ مشابہت رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت امام حسنؓ رسول کرےم سے چہرے سے سےنے تک اور امام حسےنؓ سےنے سے قدم تک رسول کی شبےہہ تھے ۔ 
چہرہ حسنؓ کا ہے کہ شبیہہِ رسول ہے
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دھول ہے
 اللہ کے نزدےک حسنین شریفین کے مقام کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے خداکی وحی کے بغےر کوئی کام اور کلام نہ کرنے والے رسول خدا کی پشت پر امام حسنؓ و حسینؓ اگر دوران نماز بھی سوار ہوئے تو نبی کریم نے سجدہ طویل کرلیا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ جب آنحضور نے نماز مکمل کر لی۔آپ نے(ناراضگی کا اظہار کرنے کے بجائے ) دونوں کو اپنے مبارک زانوو¿ں پر بٹھا لیا۔ ( سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1146 ،مسند احمد، المستدرک للحاکم، طبرانی فی الکبیر)، نبی کریم نے اپنی زندگی میں بار بار فرمایا اے اللہ ! میں ان دونوں(حسنؓ و حسینؓ) سے محبت رکھتا ہوں پس تو بھی اِن سے محبت رکھ اور ا±ن سے بھی محبت رکھ جو ِان دونوں سے محبت رکھیں۔اورجس نے حسن اور حسین سے بغض رکھا، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے بغض رکھا۔
امام حسن مجتبیٰؓ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خدا کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہراؓ کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔ فرزند رسول امام حسن مجتبیؓ اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد امامت کے درجے پر فائز ہوئے اور ساتھ ساتھ خلافت اسلامےہ پر بھی متمکن ہوئے ۔ تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رہے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رہے۔آپ کا عہد بھی خلفائے راشدےن مےں شمار کےا جاتا ہے ۔
امام حسنؓ کے والد بزرگوار امےر المومنےن حضرت علیؓ نے 21 رمضان کو شہادت پائی اس وقت امام حسن کی عمر 37 سال چھ یوم کی تھی۔ حضرت علیؓ کی تکفین و تدفین کے بعد عبداللہ ابن عباسؓ کی تحریک سے قیس ابن سعد بن عبادہ انصاریؓ نے امام حسنؓ کی بیعت کی اوران کے بعد تمام حاضرین نے بیعت کرلی جن کی تعداد چالیس ہزارتھی یہ واقعہ21 رمضان40 ھ یوم جمعہ کا ہے( ابن اثیر) ابن عباسؓ نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی۔ سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی آپ نے مستقبل کے حالات کا صحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ ”اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی اور اگر میں جنگ کروں تو تمہیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی “سب نے اس شرط کو قبول کرلیا۔ آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا۔ اطراف میں عمال مقرر کئے ’حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے۔ لےکن جب آپ نے دےکھا کہ اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور تو آپ تخت حکومت کو خےر باد کہہ دےا کےونکہ امام حسنؓ کا واحد مقصد حکم خدا اور حکم رسول کی پابندی کا اجراءچاہئے تھاامام حسن ؓ نے دےن خدا کی سربلندی، فتنہ وفساد کا سر کچلنے،کتاب خدا اور سنت رسول پر عملدرآمد کو ےقےنی بنانے کےلئے اپنے نانا رسول خدا کی صلح حدےبےہ کی تاسی مےں تخت حکومت کو ٹھوکر مار کر جو تارےخی صلح کی وہ اسلام کی تارےخ کا اےساناقابل فراموش با ب ہے جس کی نظےر نہےں ملتی۔ اور رسول کریم کے اس فرمان کو سچ کردکھایا کہ ”میرا یہ بیٹا حسنؓ مجتبی حقیقی سردار ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بہت بڑے گروہوں میں صلح کروادے گا“۔
 امام حسنؓ اگرچہ صلح کے بعد مدینہ میں گوشہ نشین ہوگئے تھے ، لےکن ان کی ذات عاشقان رسالت اور پوری امت کی محبتوں عقیدتوں اور ہدایتوں کا مرکز بنی رہی، حق کے مرکزاور تعلےمات محمدی کے سرچشمہ امام حسنؓ کا قائم رہنا دشمنان دےن کو کب گوارا تھا اسی لئے جعدہ بنت اشعث کو انعام و اکرام کا لالچ دے کرنواسہ رسول امام حسن کو زہردے کرشہےدکردیاگےا( مسعودی، مقاتل الطالبین، ابوالفدائ، روضةالصفا ، حبیب السیر ،طبری ،استیعاب) وہ پاک لب جنہیں رسول خدا چوما کرتے تھے ان لبوں نے دین مصطفوی کی سربلندی کیلئے زہر کا جام پی لیا، رسول کے پےارے نواسے فخر سقراط امام حسنؓ نے 28صفر50ھ کو جام شہادت نوش کےا اور جنت البقےع مےں مدفون ہوئے ۔امام حسن و حسےنؓ کے ساتھ رسول خدا کی محبت محض رشتے کی بنےاد پر نہ تھی بلکہ اس کردار کے سبب تھی جس کا مظاہرہ نبی کرےم کے نواسوں نے آزمائش کے ہر مرحلے پر کےا۔ امام حسنؓ کی زندگی تعلےمات مصطفوی کی عملی تفسےر ہے۔
نامور عالم اہلسنت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اپنی شہرہ آفاق تصنیف سر الشہادتین میں امام حسنؓ اور امام حسین ؓ کی شہادت کو شہادت رسولِ خدا سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہےں کہ آدم سے لے کر عیسی ٰ ؑ تک تمام پیغمبران کے اوصاف، کمالات اور خوبیاں خاتم الانبیاءمحمد مصطفی میں جمع ہو گئی تھیں، مگر ایک کمال باقی رہ گےا تھا وہ تھا شہادت کا مرتبہ‘جو حضور کو خود حاصل نہےں ہوا تھا اس کا راز یہ تھا کہ اگر حضور کسی جنگ مےں شہید ہو جاتے تو اسلام کی شوکت متاثر ہوتی ۔ حکمت الہی اور کارسازی نے یہ پسند فرماےا کہ شہادت کا کمال بھی حضور کو مل جائے ۔ مظلومیت و شہادت ان کی مناسب تھی جن کی منزلت کا رتبہ فرزند کے برابر ہوتاکہ ان کا حال حضور کے حال مےں شامل سمجھا جائے اور ان کا کمال رسول کا کمال سمجھا جائے۔ اللہ تعالی کی عناےت نے اس امر پر توجہ کی اور حسنین(حسن و حسین ) کو اپنے نانا کی نیابت بصورت شہادت عطاکی اور ان دونوں نواسوں کی شہادت رسول کی شہادت ٹھہری (سر الشہادتےن )آپ کا ہر کلام ہر اقدام امت مصطفوی کےلئے درس حےات ہی نہےں راہ نجات بھی ہے ۔عہد حاضر جسے دور جنگ و جدل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا اور بالخصوص عالم اسلام اورکلمہ پڑھنے والوں میں جس طرح انتشار افتراق کے بےج بوئے جارہے ہےں آزمائش کے اس نازک مرحلے پر پوری امت مسلمہ اور حکمرانوں کو سےرت امام حسنؓ کی پےروی کرنا ہوگی جنہوں نے جنگ و جدل کے جھلسے ہوئے ماحول مےں اپنے کردارکے ذرےعے امن کے پھولوں کی مہکار بکھےر دی اپنے خون کا نذرانہ پےش کرنے سے بھی گرےز نہ کےا۔ آج بھی بدترےن انتشار کا شکارامت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل نواسہ¿ رسول ِزمن حضرت امام حسنؓ کے افکار و کردار مےں پوشےدہ ہے ۔
ٹھکرا کے تخت و تاج حسنؓ نے ےہ کہہ دیا 
لے لے جسے ےہ رےت کی دےوار چاہئےے
منشور ِامن عالم اسلام جو بنے
مذہب کو آج بھی وہی کردار چاہئےے

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی

 بیت عقبہ کے بعد سے ہجرت کا حکم نامہ جاری ہوچکا تھا، آپ نے مہاجرین مکہ کو خوشی کی نوید سنادی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعائیں قبول کرلیں اب تم ایسی جگہ پر اپنا مسکن کرنے والے ہو جہاں کے باسی تمہاری آمد کی خبر سنتے ہی اپنی راہوں کو مزین کرنے میں لگ گئے ہیں وہ تم سے ملنے کیلئے بے قرار ہیں، ان کی نظریں پتھراچکی ہیں تمہاری راہ 

ای پیپر دی نیشن