فضل الرحمان آئینی ترامیم کی منظوری اور عدم منظوری کے درمیان فیصلہ کن کردار بن گئے

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آئینی ترامیم کی منظوری اور عدم منظوری کے درمیان فیصلہ کن کردار بن گئے۔

پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت کیلئے جمعیت علمائے اسلام کی حمایت لازمی ہوچکی۔ حکومتی وفد اعظم نذیر تارڑ کی قیادت میں مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیلئے آن پہنچا۔ 

مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کیلئے اپنی تجاویز پیش کیں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترامیم کے مسودے پر مولانا فضل الرحمان کو بریفنگ دی اور مولانا کی تجاویز پر بھی غور کیا۔ملاقات کے بعد اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ محسن نقوی وزیراعظم سے ملاقات کیلئے پہنچے اور مولانا سے بات چیت کی تفصیلات بتائیں۔وزیر قانون نے وزیراعظم کو مولانا فضل الرحمان کی تجاویز پر بھی بریفنگ دی۔حکومتی وفد واپس گیا تو پی ٹی آئی کا وفد سربراہ جمعیت علمائے اسلام سے ملاقات کیلئے پہنچ گیا۔دوسری جانب قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کا مجوزہ پیکج آج پیش کیا جائے گا، ذرائع کے مطابق آئینی ترمیم کے ذریعے آئینی عدالت قائم کی جائے گی اور آئین کے آرٹیکل 63 اے میں بھی ترمیم کی جائے گی۔ قومی اسمبلی کا اجلاس آج دن ساڑھے گیارہ بجے اور سینیٹ کا اجلاس آج شام چار بجے طلب کیا گیا ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی اجلاس سے پہلے کابینہ کا اجلاس بھی آج ہی طلب کرلیا جس میں آئينی ترمیم کے مسودے کی منظوری دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے ججوں کی مدتِ ملازمت 65 سال سے بڑھا کر 68 سال کرنے اور ہائیکورٹس کے ججوں کی مدتِ ملازمت 62 سال سے بڑھا کر 65 سال کرنے کی تجویز شامل ہے، جج تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے، جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو ایک بنانے کی تجویز آئینی ترمیم کا حصہ ہوگی۔a

ای پیپر دی نیشن