ایک سوال ذہن میں ہر وقت رہتا ہے، ہر وقت یہ خیال تنگ کرتا ہے، ہر وقت یہ سوچ ستاتی ہے کہ میرے ملک کا عام آدمی یا سفید پوش کہاں جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر مختلف لوگوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے، لوگوں کے مسائل جاننے کا موقع ملتا ہے، تکلیف میں ڈوبے انسانوں سے ملنا ہوتا ہے، کچھ کامیاب لوگوں سے ملنا ہوتا ہے، کچھ کامیابی کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں ان سے گفتگو کا موقع میسر آتا ہے، کچھ خود سے بے زار افراد بھی ملتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جنہیں کوئی پرواہ نہیں وہ جو ہو رہا ہے ویسے ہی چلتے رہنے دینا چاہتے ہیں۔ ہر کوئی پریشان ہے، جس کے پاس کچھ ہے وہ بھی پریشان ہے کہ اضافہ کیسے ہو اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے وہ بھی پریشان ہے، چلیں جن کے پاس کچھ ہے وہ تو اضافے کے لیے پریشان ہیں اور جن کے پاس کچھ نہیں ہے وہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن جن کے پاس کچھ نہیں وہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے پریشان ہیں لیکن ملک میں بہت بڑی تعداد یعنی کروڑوں میں ایسے افراد ہیں جو اس کے درمیان میں پس رہے ہیں۔ ان کے لیے زندگی گذارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں جب کہ آمدن میں کمی واقع ہو رہی ہے تو وہ طبقہ جو نہ تو کسی سے مانگ سکتا ہے، نہ کسی کو اپنا حال بتا سکتا ہے، نہ کسی سے شکوہ کر سکتا ہے، نہ مدد مانگنے کا حوصلہ ہے، نہ رونے، چیخنے چلانے کا راستہ بچا ہے۔ ان حالات میں یہ طبقہ مہنگائی کے دباؤ میں پستا ہی چلا جا رہا ہے۔ ویسے تو ہر سطح پر سستی ہوتی زندگی اور مہنگی ہوتی اشیائے ضروریہ نے اثرات چھوڑے ہیں۔ لوگوں کا ملنا جلنا کم ہو گیا ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 14.36 فیصد ہو گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں پندرہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ چودہ اشیا کی قیمتوں میں کمی اور بائیس اشیا کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں سات روپے چالیس پیسے کا اضافہ، زندہ مرغی کی فی کلو قیمت سولہ روپے سات پیسے کا اضافہ، ایک ہفتے میں بجلی فی یونٹ چھبیس پیسے مہنگی ہوئی۔ دال چنا نو روپے چھبیس پیسے، لہسن بارہ روپے فی کلو، بیف فی کلو گیارہ روپے اور مٹن کی فی کلو قیمت میں چودہ روپے تک اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ تازہ دودھ، دہی، گھی، ٹوٹا باسمتی چاول مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔ کیا کوئی اس طرف بھی توجہ دیتا ہے یا نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں گندم اور آٹے کی قیمت ہی قابو میں نہیں آ رہی۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔
بہرحال سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کے ملک میں حکومت چلانے والوں نے اس کا اثر نہیں لیا، نہ تو انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اثر ہوا ہے نہ انہیں عوام کی حالت زار پر رحم آتا ہے۔ امراء کا طبقہ یا حکمران طبقہ یا فیصلہ سازی میں شریک اہم شخصیات کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی و بے روزگاری نے چونکہ متاثر نہیں کیا اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، غریب کا بچہ سکول جائے نہ جائے، بیمار ہونے پر اس کا علاج ہو نہ ہو کسی کو پرواہ نہیں۔
اگر حکمران طبقے کو فکر ہوتی تو آج ملک میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر نہ ہوتے، یاد رکھیں یہ نمبرز سرکاری ہیں یعنی حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد بچے سکول جانے سے محروم ہیں یا سکولوں سے باہر ہیں۔ پانچ سے نو سال تک کے ایک کروڑ سات لاکھ چوہتر ہزار آٹھ سو نوے بچے، بچیاں سکول سے باہر ہیں۔ دس سے بارہ سال تک کی عمر کے انچاس لاکھ سے زائد بچے بچیاں مڈل تعلیم سے محروم ہیں جن میں 21 لاکھ 6 ہزار 672 بچے اور 28 لاکھ 28 ہزار 812 بچیاں مڈل تعلیم سے محروم ہیں۔
وزارت تعلیم کا بتانا ہے کہ پینتالیس لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات ہائی سکول کی تعلیم سے محروم ہیں۔ کیا یہ اعداد و شمار ہماری تمام سیاسی جماعتوں اور قیادت کو کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتے۔ تعلیم جیسی بنیادی اور اہم ترین چیز سے کروڑوں بچے محروم ہوں اور ملک میں سیاسی جماعتیں ہر وقت کسی نہ کسی آئینی ترمیم میں مصروف ہوں، ہر وقت کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت سڑکوں پر ہو، احتجاج اور مظاہرے ہوں، دھرنے ہوں، پکڑ دھکڑ ہو، جلاو گھیراؤ رہے لیکن کسی کو یہ تکلیف نہ ہو ملک کے ڈھائی کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے ہی محروم ہوں۔ یہ صرف تعلیم کی بات ہے اگر صحت اور غذا کی بات ہو تو اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہوں لیکن کوئی پارلیمنٹ کوئی ادارہ اس پر ایکشن نہیں لیتا۔ حیران کن ہے کیونکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ہم اپنے مستقبل کو تعلیم سے محروم رکھے ہوئے ہیں ان، اچھی غذا اور صحت کی سہولیات سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں ان بچے بچیوں کو جو ہم نے دینا ہے یہ ہمیں واپس کریں گے۔ اتنی بھی بے حسی کیوں ہے۔ یہ بے حسی کب ختم ہو گی؟؟
آخر میں ندا فاضلی کا کلام
تمہاری قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مَر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر
جس نے اڑائی تھی
وہ جھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہْوا پتا
ہوا سے ہِل کے ٹْوٹا تھا
میری آنکھیں
تمہارے منظروں میں
قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھا ہوں
سوچتا ہوں ، وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی
اور بدنامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ
میری انگلیوں میں
سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کیلئے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہْوا میں
اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے
جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری لغزشوں
ناکامیوں کے ساتھ رہتا ہے
میری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
میری بیماریوں میں تم
میری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر
جس نے تمہارا نام لکھا تھا
وہ جھوٹا تھا
تمہاری قبر میں تو
میں دفن ہوں
تم ، مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو
فاتحہ پڑھنے چلے آنا