قانون، حکمران اور عوام

بظاہر یہ عام فہم سی بات ہے کہ سیٹ بیلٹ کا استعمال گاڑی چلانے والے کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ جانتے بوجھتے بھی بہت کم لوگ سیٹ بیلٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جو ڈرائیور سیٹ بیلٹ لگانا اپنی شان کے منافی سمجھتا ہے وہ جونہی اپنی گاڑی کو موٹر وے پر لاتا ہے تو دفعتاً ایک خودکار نظام کے تحت اْس کا بایاں ہاتھ سیٹ بیلٹ باندھنے کے لئے اٹھ جاتا ہے۔ موٹر وے چھوڑتے ہی وہ سیٹ بیلٹ ایک بوجھ جان کر نہ صرف اتار پھینکتا ہے بلکہ اِس عمل سے ازحد طمانیت بھی محسوس کرتا ہے۔ وہ یہ سوچنے کا تکلف گوارا نہیں کرتا کہ حادثہ صرف موٹر وے پر ہی نہیں، کہیں بھی وقوع پذیر ہو سکتا ہے جبکہ سیٹ بیلٹ ہر جگہ اس کے تحفظ کی ضامن بن سکتی ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال راولپنڈی سے اسلام آباد کی حدود میں داخل ہوتے اور پھر اسلام آباد سے واپس راولپنڈی آتے وقت دیکھی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد کی اہم سڑکوں کو اب کافی حد تک سگنل فری کر دیا گیا ہے مگر جہاں تہاں ٹریفک کے اشارے موجود ہیں، انہیں ’توڑنے‘ کی نوبت کم ہی آتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ گاڑی بھی وہی، ڈرائیور بھی وہی، ڈرائیور کا بھیجا بھی وہی اور ٹریفک قوانین بھی وہی… تو پھر مختلف مقامات پر عمل میں کھلا تضاد کیوں؟ 
اِس تضاد کی وجہ صرف یہ ہے کہ جن جگہوں پر ٹریفک آفیسر قانون کو مقدم جانتے ہوئے ڈرائیور کی حیثیت، رعب یا دبدبے کی پرواہ نہیں کرتے وہاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کم سے کم ہوتی ہیں کیونکہ منت سماجت میں ناکامی کے بعد چالان ہونے کی صورت میں سبکی محسوس ہوتی ہے۔ دوسری جگہوں پر وہ ٹریفک کے بہاؤ کی زیادتی، ٹریفک اہلکاروں کی کمی، شخصی تعارف کے جادو، کسی بڑے سے نسبت کی دھمکی یا مک مکا کی سہولت کی وجہ سے چالان ہونے سے بچ نکلتا ہے، اِسی لئے وہ قانون کے لفظ کو اپنی لغت سے کھرچ ڈالتا ہے۔ 
معاملہ صرف ٹریفک قوانین کا ہی نہیں بلکہ ہر قسم کے قوانین کا حال ایک جیسا ہی ہے۔ لوگ قانون سے زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں قوانین پر جو تھوڑا بہت عملدرآمد ہوتا ہے وہ ریاستی فرض سمجھ کر سب کی طرف سے نہیں بلکہ ڈر اور خوف کے تحت کمزور طبقے کی جانب سے ہوتا ہے۔ زیادہ دولت مند، طاقتور اور بااثر شخص خود کو قانون کے تابع ڈھالنے کی بجائے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ قانون کو موم کی ناک سمجھتا ہے جس کو دولت کی چمک، عہدے کی دھاک اور اثر و رسوخ کے طلسم سے حسبِ ضرورت موڑ لیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ ضرور ہوگا مگر یہ تب اندھا ہوتا ہے جب اِس کا سامنا کسی غریب اور مسکین سے ہو۔ جیسے ہی اس کا واسطہ کسی ’’بڑے‘‘ سے پڑتا ہے تو اس کا اندھا پن ایک دم ختم ہو جاتا ہے۔ 
کسی زمانے میں شیریں مزاری پلس (Pulse) کے نام سے ویکلی میگزین نکالا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ایک اہم شخصیت کی گاڑی نے چائنا چوک، اسلام آباد سے گزرتے ہوئے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کی تو پلس میں شہ سرخی ہی ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر لگ گئی۔ جب صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان نے اٹھاون ٹو بی کے تحت نواز شریف کی حکومت برطرف کرکے بلخ شیر مزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کیا تو شیریں مزاری نے اس عمل کو غیر آئینی اور غیر قانونی سمجھتے ہوئے بلخ شیر مزاری کو ’’بطخ‘‘ شیر مزاری کہنا اور لکھنا شروع کر دیا۔ اتنی دبنگ، بے باک اور پڑھی لکھی ہستی جب سیاست کے خاردار میدان میں اتری تو اس کی سابقہ شہرت اور قانون پسندی گرہن زدہ ہو کر رہ گئی۔ شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ 
رہنما ہوں یا عام پاکستانی، جب کبھی بیرون ملک جاتے ہیں تو مجال ہے کہ وہاں قانون کی خلاف ورزی کریں کیونکہ پتہ ہوتا ہے کہ قانون شکنی کی صورت میں سزا بھی ملے گی اور ڈی پورٹ بھی کر دیا جائے گا۔ اِدھر کے سب قانون شکن اْدھر جا کر قانون کی لڑی میں پروئے نظر آتے ہیں۔ 
سادہ الفاظ میں قانون سے مراد ریاست کی طرف سے تسلیم شدہ اصولوں اور ضابطوں کا ایسا مجموعہ یے جو انصاف قائم کرنے کے لئے نافذ کیا گیا ہو۔ اگر ہم پاکستانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں ہر حکمران کے دور میں آئین شکنی، قانون شکنی اور ناانصافی کے ان گنت واقعات پڑھنے کو ملیں گے۔ اب تو عوام بھی رہبروں کی خوبصورت زبانی تقریروں کی بجائے ان کے عملی رنگ میں رنگے جا چکے ہیں۔ کبھی کبھی آوے کا آوا بگڑا دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہمارے ہاں جنگل کا قانون ہو مگر زہرا نگاہ اِس سے بھی اتفاق نہیں کرتیں۔ اْن کے بقول، "سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے۔ سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا، درختوں کی گھنی چھاؤں میں جا کر لیٹ جاتا ہے۔ ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں تو مینا اپنے بچے چھوڑ کر کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے۔ سنا ہے گھونسلے سے کوئی بچہ گر پڑے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔ سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں بئے کے گھونسلے کا گندمی رنگ لرزتا ہے تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں۔ کبھی طوفان آ جائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو کسی لکڑی کے تختے پر گلہری، سانپ، بکری اور چیتا ساتھ ہوتے ہیں۔ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے… خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر! مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!‘‘ 
 ایک تربیت کار نے شرکائے کورس سے کہا کہ وہ جو کہے گا، سب اس کی پیروی کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور سب کو کھڑا ہونے کو کہا۔ سب کھڑے ہو گئے تو اس نے اپنا دایاں ہاتھ کھڑا کرتے ہوئے شرکائے کورس کو بھی ایسا کرنے کو کہا۔ سب نے تعمیل کی۔ اس نے مزید کہا کہ آپ سب اپنے اس ہاتھ سے بائیں کان کو پکڑیں۔ خود اس نے اپنے بائیں کان کی بجائے اپنی ناک کو پکڑ لیا۔ کورس کے شرکاء میں سے کچھ نے اسے سن کر اپنے بائیں کان کو اور کچھ نے اسے دیکھ کر ناک کو پکڑ لیا۔ پھر کچھ نے ٹرینر کو دیکھ کر کان چھوڑ دیا اور شدید کنفیوڑن میں ناک پکڑ لی۔ معدودے چند ایسے بچے تھے کہ جنہوں نے ابھی تک اس کے زبانی حکم پر کان پکڑ رکھے تھے جبکہ اکثریت نے ناک کو پکڑا ہوا تھا۔ تب تربیت کار نے کہا، ’’آپ کے لیڈر زبانی کچھ کہتے ہیں مگر عملاً کچھ اور کرتے ہیں۔ عوام کی اکثریت بھی آپ ہی کی طرح زبانی اتباع کی بجائے ان کے عملی کردار کی پیروی کرتی ہے۔ یوں قوم کی غالب اکثریت قانون شکن، منافق، بے اصول، ٹیکس چور اور کرپٹ حکمرانوں کے رنگ میں رنگی جاتی ہے۔‘‘

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...