پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ۔ گولڈن جوبلی

پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کو طبی سہولتوں کی فراہمی ہر حکومت کی ذمہ داری رہی ہے۔ لیکن مریضوں کی تعداد کی مناسبت سے مختلف بیماریوں کے ماہر ڈاکٹروں کی ہمیشہ کمی محسوس کی جاتی ہے۔ میڈیکل سائنس میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد اگرچہ پاکستان میڈیکل کونسل کی طرف سے ضروری شرائط کے پورا کر لینے کے بعد ڈاکٹروں کو پریکٹس کرنے کی اجازت ہوتی ہے مگر آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق اچھے اور معیاری علاج معالجے کیلئے سپیشلسٹوں کی ضرورت پڑتی ہے۔مختلف بیماریوں کیلئے سپیشلسٹ ڈاکٹر آسانی سے دستیاب نہیں ہوتے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ کسی بھی شعبے کیلئے سپیشلسٹ بننے کیلئے اس مقصد کیلئے قائم اداروں میں بہت پڑھنا پڑتا ہے، ٹریننگ لینا ہوتی ہے اور پھر کڑے امتحان پاس کر لینے کے بعد کوئی ڈاکٹر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ سپیشلسٹ کے طور پرکام کر سکے۔پاکستان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سپیشلسٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ڈاکٹر تیار کرنے والے اور انہیں تعلیم و تربیت دینے والے ڈاکٹر کم ہیں اور پھر بہت سے ڈاکٹر بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ ایسے میں ان اداروں کا وجود غنیمت ہے جو اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اورنئے پوسٹ گریجوایٹ ڈاکٹر تیار کرنے کیلئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے انہی قابل فخر اداروں میں سے ایک لاہور میں 1974ء میں قائم ہونے والا پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ لاہور ہے۔ یہ سال اس کی گولڈن جوبلی کا سال ہے اور اپنی اور ایم ایس جنرل ہسپتال ڈاکٹر فریاد حسین اور سینئر ڈاکٹروں نرسوں معاون طبی عملے سمیت اپنی ٹیم کی محنت سے اسکے پرنسپل پروفیسرالفرید ظفر نے اس انسٹیٹیوٹ اور ملحقہ اداروں کی کارکردگی کو اتنی بلندی تک پہنچا دیا ہے کہ گولڈن جوبلی کے رواں سال ہر طرف سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ اسے ڈگری اور ڈپلومہ دینے کے حوالے سے اب خود مختار کیا جائے۔پرنسپل پروفیسر الفرید ظفر نے رات دن محنت کی تو شائد اس لئے کہ ان کو یقین ہے کہ 
وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا
 کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا۔ گزشتہ پچاس سالوں کی طبی شعبے میں بھرپور جدو جہد کے دوران اس ادارے نے کئی مدو جذر دیکھے۔ آغاز میں صرف 23 بنیادی اور کلینیکل کورسز سے شروع ہونے والا یہ ادارہ اس وقت میڈیکل کے 60 مختلف کورسزیا ڈگریوں جن میں 18 ڈپلومے اور48 ڈگری کورسز شامل ہیں کیلئے سٹوڈنٹس کو سروسز مہیا کر رہا ہے اور یہ معمولی بات نہیں ہے۔۔ آج جس مقام پر پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، کبھی یہاں پر علامہ اقبال میڈیکل کالج تھا۔ جب علامہ اقبال میڈیکل کالج اپنے نئے کیمپس میں شفت ہو گیا تو2010ء میں پروفیسر طارق صلاح الدین کی مسلسل کوششوں سے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے جو اس وقت وزیر اعلی پنجاب تھے، برڈ وڈ روڈ متصل جیل روڈکا سارا کیمپس اس باوقار ادارے پوسٹ گریجو یٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے سپرد کر دیا۔ پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ کے طلبا و طالبات کی عملی تعلیم و تربیت کیلئے ایک طرف لاہور کاتاریخی حیثیت کا حامل ہسپتال یعنی لاہور جنرل ہسپتال ملحقہ تھا جہاں 2023ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ساڑھے چوبیس لاکھ اور اب اس سے بھی زیادہ مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی گئیں اور جسکے میڈیسن، گائنی، سرجری، ڈرماٹولوجی، ٹیلی میڈیسن سمیت مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ نیورو سرجری کا ڈیپارٹمنٹ پنجاب بھر میں امید کی کرن کے طور پر آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔ اور دوسرا سروسز ہسپتال ملحق تھا لیکن جب پمز کے نام سے سروسز ہسبپتال میں نیا انسٹی ٹیوٹ معرض وجود میں آیا اور سروسز ہسپتال کا الحاق اس نئے انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ہو گیا تو سروسز ہسپتال کی سہولت سے محروم ہونے کے بعد 2012ء میں میاں امیرالدین میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیا اور یوں یہ کالج بھی پی جی ایم آئی کیلئے انڈر گریجویٹ اور سا تھ ہی پوسٹ گریجویٹ زیر تربیت ڈاکٹروں کی عملی تعلیم و تربیت کیلئے ملحقہ کالج بن گیا۔پی جی ایم آئی یعنی پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کئی حوالوں سے میڈیکل کی تعلیم کا ایسا منفرد ادارہ ہے جسکی قابل ستائس کارکردگی حکومت پنجاب کی نظر میں رہتی ہے۔ یہاں پنجاب کیساتھ ساتھ پاکستان کی تمام انتظامی اکائیوں یعنی تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر گلگت بلتستان سے ڈاکٹر اعلی تعلیم کیلئے تو آتے ہی ہیں۔ انکے ساتھ ساتھ مختلف دوست ملکوں کے سٹوڈنٹس کو بھی پالیسی کے تحت داخلہ ملتا ہے۔ اس طرح جب عرب ممالک کیساتھ ساتھ سری لنکا نیپال بنگلہ دیش افغانستان ایران اور دوسرے ممالک کے ڈاکٹروں کو ٹریننگ اور ٹیچنگ کی ایک ساتھ سہولت ملتی ہے تو فارغ التحصیل ہونے کے بعد یہ تما م ڈاکٹر محبت اور یگانگت کے سفیر بن کر پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور یہ سلسلہ پچھلے پچاس سال سے جاری ہے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ لاہور میں میاں امیر الدین کے نام سے جس نئے میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی گئی تو اس نام کو اتنی اہمیت دینے کا پس منظر کیا تھا۔ در اصل اس میڈیکل کالج کو میاں امیر الدین کا نام دینے کا پس منظر کوئی سیاسی یا حکمران طبقے کی کسی حوالے سے خوشنودی حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ یہ ان اچھی روایات میں سے ایک تھی جن کو بحال کرنا وقت کی ضرورت ہے۔پروفیسر امیرالدین قیام پاکستان کے وقت میو ہسپتال میں سرجری کے ممتاز ڈاکٹر تھے۔ ہجرت کے وقت بھارت سے آنیوالے بے بس زخمی مسلمانوں کیلئے انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ رات دن ایک کر دیا۔ ہمیشہ میڈیکل کے طلبا کے مسائل حل کرنے میں لگے رہتے انکے شاگردوں نے بعد میں میڈیکل کے طلبا کی تعلیم و تربیت انہی سے حاصل کردہ جذبے سے کی۔ دکھی انسانیت کے لے ان کے ایثار کا یہ عالم تھا کہ گلبرگ جیسے پوش علاقے میں اپنی بیش قیمت رہائش گاہ کو فروخت کیا اور جو پیسہ ملا وہ میو ہسپتال کے پیڈیاٹرک سرجری کے شعبے کیلئے عطیہ دیدیا۔ دکھی انسانیت کیلئے انکی بے پناہ خدمات کے پیش نظر پی جی ایم آئی اور اے ایم سی کی اکیڈمک کونسل نے نئے میڈیکل کالج کا نام انکے نام پر امیر الدین میڈیکل کالج رکھنے کا فیصلہ کیا۔ انسانیت کیلئے بے پناہ خدمت کرنیوالے ممتاز ڈاکٹر امیرالدین کا نام جس طرح پوسٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ سے بالواسطہ جڑا ہوا ہے اسی طرح ایک اور بڑا نام بھی میڈیکل کی اعلی تعلیم کی اس کہکشاں کا حصہ ہے۔ ایک عرصہ سے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور اس سے ملحقہ میاں امیرالدین میڈیکل کالج اور لاہور جنرل ہسپتال میں مریضوں کے ریکارڈ علاج معالجے کی مثبت سرگرمیوں کی گونج دور دور تک سنائی دیتی ہے تو اسکے پس منظر سے بھی بہت سے لوگوں کو آگاہی نہیں ہو گی۔
پاکستان کے سراپا محبت شہر ملتان کے نشتر ہسپتال میں ایک ایسے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے جنہوں نے طالب علمی میں قائد اعظم کے سیکورٹی انچارج کے طور پر بھی کام کیا تھا۔ایک مثالی اور ہردلعزیز منتظم اور انسانیت سے محبت کرنے یہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد حیات ظفر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر بھی رہے۔ کالج آف سرجنز اینڈ فزیشنز سی پی ایس پی کے صدر رہے ، انٹرنیشنل میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹی کے رکن رہے اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں ہر سال پوزیشن ہولڈرز کو پروفیسر محمد حیات ظفر گولڈ میڈل دیا جاتا ہے اور انکے شاگردوں میں پروفیسر ظفر اللہ چوہدری، پروفیسر راشد لطیف پروفیسر فیصل مسعود اور پروفیسر محمد زمان جیسے بڑے قد کے لوگ شامل ہیں۔ انہی کے ہونہار فرزند اور تربیت یافتہ پروفیسر سردار محمد الفرید ظفر ایک عرصہ سے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اور ملحقہ اداروں کے پرنسپل ہیں۔چنانچہ رضیہ تشدد کیس ‘کچے کے ڈاکوئوں والا زخمی سپاہی بلال جاوید کیس ، ہر اہم کیس لاہورجنرل ہسپتال کو ایک چیلنج کے طور پر بھیجا جاتا ہے اور بہترین رزلٹ پر اس کا اختتام ہوتا ہے۔ آئے روز تخلیقی صحت کی ہم نصابی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں اور ہسپتال میں مریضوں ڈاکٹروں نرسوں معاون سٹاف اور انتظامیہ کے مابین مثالی تعلقات رہتے ہیں ‘اسکا کریڈٹ اس تربیت کو بھی جاتا ہے جو ادارے کے پرنسپل پروفیسر الفرید ظفر اوراپنے نامور والد ڈاکٹر محمد حیات ظفر سے ورثے میں ملی ہے۔ اپنی بہترین پروفیشنل پچاس سالہ تاریخ ، نتائج اور انتظامی خوبیوں کیساتھ یہ مطالبہ درست معلوم ہوتا ہے کہ پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کو گولڈن جوبلی کے موقع پر خود ڈگری جاری کرنیوالے ادارے کی حیثیت دی جائے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...