فیصلوں میں تضاد

ملکی سطح پر ماضی میں چند ایسے فیصلے ہوئے جن کی وجہ سے عالمی سطح پر ملک کا تشخص مجروح ہوا ، اور اداروں کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ، ان میں کچھ فیصلے جذبات اور ذاتی اناء میں ملک کی بدنامی کا باعث بنے اور کچھ درپردہ عوامل کی بنا پر صادر ہوئے ، 18 ، مارچ 1978 ء کو لاہور ہائی کورٹ کے بنچ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر 4 ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی تھی ، اس پانچ رکنی بنچ میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین ، جسٹس زکی الدین پال ، جسٹس ایم ایس ایچ قریشی، جسٹس آفتاب حسین ، اور جسٹس گل باز خان شامل تھے ، بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے والے جسٹس صمدانی کو بنچ سے باہر کر دیا گیا تھا، اس بنچ کو مولوی مشتاق حسین نے از خود تشکیل دیا تھا اور اس کے سربراہ بھی خود تھے ، اور انہوں نے سیشن عدالت سے لاہور ہائیکورٹ میں بھٹو کا مقدمہ منتقل کرنے کا حکم بھی دیا تھا ، کسی بھی قتل کا کیس سیشن کورٹ کے بجائے ہائیکورٹ میں چلنا بہت بڑا نقص اور زیادتی تھی، کیونکہ ملزم اپنے ایک فورم سے محروم کیا گیا، یہ سب بھٹو سے ذاتی عناد کی وجہ سے کیا گیا ۔
25 ، مارچ 1978 ء کو سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہوئی جس کی سماعت 7 ماہ تک جاری رہی ، 6 ، فروری 1979 ء کو اپیل کا فیصلہ سپریم کورٹ نے چار تین کی اکثریت سے بھٹو اور باقی چار ملزمان کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے موت کی سزا سنا دی تھی ، بھٹو پر یہ مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 109 کے تحت چلایا گیا اور موت کی سزا دے دی گئی جبکہ اس دفعہ کے تحت پہلے شاید ہی کسی کو موت کی سزا دی گئی ہو ، اس کیس میں تین جج صاحبان جسٹس غلام صفدر شاہ ، جسٹس دراب پٹیل ، اور جسٹس حلیم نے بھٹو کو بری کر دیا تھا ، جسٹس صفدر شاہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ وعدہ معاف گواہ مسعود محمود کے بعض بیانات صرف سنی سنائی باتوں کے زمرے میں آتے ہیں ، اس لئے بطور شہادت قبول نہیں ہو سکتے ، جب کہ وعدہ معاف گواہ کوئی قابل اعتماد آدمی نہیں ۔
اس مقدمہ کے فیصلوں میں تضاد کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ، کیونکہ سات میں سے تین ججوں کے بری کر دینے سے پھانسی کی سزا کا جواز نہیں بنتا تھا ، یہی بات سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے 6 ، مارچ 2024 ء کو بھٹو کیس کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر اپنے متفقہ فیصلے میں رائے دی کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو منصفانہ ٹرائل نہیں ملا ، اور بھٹو کے خلاف لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں کاروائی آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کے آرٹیکل 109-4-A کے مطابق نہیں تھی ، تاہم سپریم کورٹ نے بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا،کیونکہ بنچ کے مطابق آئین و قانون میں ایسا کوئی میکنزم موجود نہیں2018 ء میں ایک امکانی مفروضے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرر دے دیا تھا، عدالت نے نیب کو نواز شریف کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد اسحاق ڈار ، مریم نوا ز،حسن نواز، حسین نواز اور کیپٹن صفدر کو شامل تفتیش کرنے اور ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا بھی حکم صادر کرنے کے ساتھ احتساب عدالتوں کو ان ریفرنسز کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کرنے کی تنبیہ بھی کی ، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ایک جج کو تعینات کیا جائے گا جو قومی احتساب بیورو کی ان ریفرنس کی کاروائی کی نگرانی کریں گے ، اسی طرح احتساب عدالت نے نواز شریف کی غیر موجودگی میں انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں دس سال کی قید کی سزا دی ، 2023 ء میں جب قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم منظور کیں ، اور آئین کے آرٹیکل -1-F 62 کے تحت نا اہلی کی مدت پانچ سال مقر کی تو نواز شریف تقریباً چار سال سے زائد مدت تک نااہل رہنے کے بعدپاکستان واپس آئے ، ان پر قائم کئے گئے ریفرنسز اور سزائیں بھی ختم کر دی گئیں۔  
 مشاہدے میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک ہی ادارے سے فرد واحد کو متضاد اور مختلف القابات سے نوازا گیا ،جنوری 2019 ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے تفصیلی فیصلے میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا ، اور حنیف عباسی کی نظر ثانی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار نے لکھا کہ اپیل میں اٹھائے گئے دلائل کو پذیرائی بخشنا مقدمے کی دوبارہ سماعت کے مترادف ہو گا ، بعد اذاں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے صادق و امین کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو مکمل طور پر صادق و امین قرار نہیں دیا تھا ، اسی طرح مرحوم چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھٹو کیس میں اعتراف کیا تھا کہ ہم پر دبائو تھا ، ماہ رواں میں سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے نیب ترمیمی ایکٹ مجریہ 2022 ء کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست پر تین رکنی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں تھی ، عمران نیازی اسے غیر آئینی ثابت نہیں کرسکے انہوں نے نیک نیتی سے یہ درخواست دائر نہیں کی ، ان میں بہت سی ترامیم کے معمار عمران نیازی خود ہیں ۔
ایک ہی عدالت سے صادق و امین اور پھر نیک نیت نہ ہونا ، اور نیب ترامیم کے معمار جیسے خطابات ظاہر کرتے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر کئے گئے فیصلوں میں کہیں نہ کہیں تو سچائی چھپی ہے ، جب کہ فیصلوں میں تضاد سے ملک کی معیشت اور استحکام بری طرح متاثر ہوا ، روپے کی قدر میں کمی ہوئی، مہنگائی اور انتشار بڑھا ، قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم سچائی کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں ، اگست1947 ء میں ہم نے انگریز اور ہندو سے آزادی حاصل کی لیکن اپنے فیصلوں میں ہم ابھی تک آزاد نہیں ہوئے ، جس وجہ سے ملک ترقی کی سمت طے کرنے میں تاحال ناکام ہیں، سردست معیشت اپنے پائوں پر قائم نہیں اور غربت اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے،لمحہء فکریہ 
 ٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...