انسان خود،، اشرف المخلوقات،، قرار دیے جانے کے بعد بھی عظیم ہرگز نہیں ہوتا، عظیم اس کا کردار ہوتا ہے اسی لیے کچھ لوگ دنیا میں چھاؤں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ وہ ساتھ دکھائی دیں، نہ دیں لیکن کبھی کسی ساتھی کو تنہا نہیں چھوڑتے اور دعاؤں میں سب پر گرفت رکھتے ہیں۔ یقینا ایسے لوگوں کے قدر ہونی چاہیے کیونکہ یہی لوگ دوسروں کے لیے آ سانیاں پیدا کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں یعنی کچھ شخصیات اپنی ذات میں بھی،، انجمن،، ہوتی ہیں۔ لیکن ایسے لوگ ہزاروں میں ایک ہوتے ہیں۔ موجودہ ،،ٹینشن زدہ،، ماحول میں ایک ایسی بیٹھک کی کہانی سنانے جا رہا ہوں جہاں دو درجن افراد کی موجودگی میں نہ کسی معاشی بدحالی کا واویلا ہوا اور نہ ہی کوئی سیاسی گفتگو حالانکہ ،،لمحہ موجود،، میں ہر انداز،، تقسیم در تقسیم،، کا قصہ سنا رہا ہے۔ شادی بیاہ کی تقریب ہو یا کوئی جنازہ ،سیاسی بدحالی اور معاشی بحران کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔ پھر بھی اس ،،بیٹھک ،،میں تمام چہرے مسکرا رہے تھے ہر لمحے قہقہے گونج رہے تھے ایسی انوکھی محفل زندہ دلوں کے شہر لاہور کے قدیمی تاریخی ہوٹل کے اس منفرد اور یادگار کمرے میں منعقد ہوئی جہاں کبھی بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ قیام کیا کرتے تھے۔ یہ کمرہ آ ج بھی بڑی تزئین و آ رائش کے ساتھ اپنی منفرد حیثیت میں موجود ہے۔ یہاں ڈرائنگ روم ،بیڈ روم کے ساتھ باتھ روم بھی موجود ہے لیکن ایک خوبصورت کارنر میں ایک بڑی ہی منفرد میز، ٹیبل لیمپ کیساتھ لگی ہے جسے قائد کا دفتر قرار دیا جاتا ہے۔ اس کمرے کی خوبصورتی اپنی جگہ لیکن اسکی ہر جگہ پر قائد اعظم کی تاریخی تصاویر بھی آ ویزاں کی گئی ہیں۔ یہاں اس ’’بیٹھک،، کی دعوت ہمارے،، کلاس فیلو،، چوہدری پرویز شہزاد آ ف ٹیکساس( یو ایس اے) کی جانب سے دی گئی تھی جو خود بھی اپنی ذات میں ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں۔ شرکاء محفل کی اکثریت75۔ 1974 کے دیال سنگھ کالج کے گریجویٹس طلبہ کی تھی۔ ذرا سوچیں۔یہ کیسے منفرد اور قابل تقلید لوگ ہیں کہ نصف صدی بعد بھی ایسے ہنستے، مسکراتے قہقہے لگاتے ملتے ہیں جیسے آج بھی وہ زمانہ طالب علمی میں جی رہے ہوں۔ زندگی کے تمام غم اور امتحانوں میں پاس فیل ہونے کے باوجود کئی گھنٹوں کی نشست میں یہ ایسے مست رہے ،جیسے انھیں دنیا کا کوئی غم نہیں، اسے کہتے ہیں محفل یاراں، ایک سے زیادہ ہم جماعت بچوں ،پوتوں اور نواسوں کے ہمراہ بھی شامل ہوئے۔ سب خوش و خرم تھے پرانی یادیں، اساتذہ ،بچھڑ جانے والے دوستوں کی داستانیں بھی سنی اور سنائی گئیں۔ پرتکلف،، ہائی ٹی،، سے بھی بھرپور لطف اٹھایا گیا اور پیغام یہی دیا گیا کہ یہ بات اچھی نہیں کہ پھر ملیں گے، اگر زندگی نے وفا کی۔ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ ملتے رہو گے تو زندگی کا مزہ لو گے کیونکہ مسکراہٹ روح کی غذا اور قہقہے اس مشکل دور کی آ کسیجن ہیں۔ اسی لیے جدید دور میں،، لافٹر تھراپی،، متعارف کرائی گئی ہے۔ ایسے میں ہمارے ایک دوست ندیم دلدار خان نے دوستوں سے دوری کے بعد پیغام دیا کہ انسان کو بوڑھا ہونے کے لیے عمر نہیں لگتی، بس ایک غم لگنے کی دیر ہوتی ہے۔ بات میں وزن ہے اللہ آ سانیاں پیدا کرے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بوڑھے ماں باپ کا سہارا چھڑی نہیں ہوتی انکی اولاد ہوتی ہے اور ان کا جینے کا بہانہ ان کی اولاد ہوتی ہے۔ نظام قدرت ہے کہ خطرات کے باوجود زندگی وقت سے پہلے ختم نہیں ہو سکتی اور ہر ممکن احتیاط کے باوجود زندگی وقت کے بعد موجود نہیں رہ سکتی، پھر بڑھاپے کا رونا کیسا؟ یہ تو ایسی دولت ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ‘ہم تو کہتے ہیں آ ؤ پھر دوست پرانے ڈھونڈیں، آ ؤ پھر سے جینے کے بہانے ڈھونڈیں، زندگی اور موت منجانب مالک کائنات ہے۔ جب جینا اور مرنا ہمارے بس میں نہیں تو پھر خوف کیسا؟ نامکمل علم فساد پیدا کرتا ہے اسی لیے پریشان ہیں ہم سب، ورنہ ،،کلمہ گو،، کی حقیقی زندگی تو دنیا سے رخصتی کے بعد شروع ہوگی لہذا کبھی دوسروں کو خوشی دے کر دیکھیں، سکون خود ہی مل جائے گا۔
ریٹائرڈ لڑکوں کی بیٹھک جیسے ،،عنوان، پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ خالص لڑکوں کی نشست تھی کسی لڑکی کو نہ مد عو کیا گیا تھا اور نہ ہی آ نے کی اجازت تھی، رہی بات عمر کی تو یہ تو اللہ کی عطا ہے۔ لڑکا اگر بڑی عمر پا لے تو لڑکی ہرگز نہیں بنتا البتہ ریٹائرڈ کا لفظ استعمال اس لیے کیا کہ تمام کلاس فیلوز،، 65،، سال سے زیادہ عمر رکھتے ہوئے زندگی کے تمام نشیب و فراز سے نبر آ زما ہو چکے ہیں۔ اکثریت میں نانا ،دادا تھے لیکن حرکتیں سب کی ،،لڑکوں،، والی تھیں۔ شیر خدا داماد رسول آ قائے دو جہاں حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے کہ جس کے اچھے دوست ہوں وہ شخص کبھی غریب نہیں ہو سکتا۔ اس،، بیٹھک،، کی خوشبو، مفادات ،خواہشات سیاسیات اور معاشیات کے دکھوں سے بالا تھی اس لیے ہنستے، مسکراتے قہقہے لگاتے روشن چمکتے، دمکتے چہرے گواہی دے رہے تھے کہ ہم سب غم دنیا سے بے خبر بہت امیر لوگ ہیں۔ یقین جانیے، معاشرے میں رواداری اور برداشت کے فقدان نے مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل سے زیادہ بحران پیدا کیے ہیں۔ ہمیں اپنی فکر نہیں، ہم دوسروں کے اندیشے میں دبلے ہوئے جاتے ہیں حالانکہ ہم سب آ سانیاں مانگنے کے بھکاری ہیں۔ پھر بھی دوسروں کی پریشانیوں میں مزہ تلاش کرتے ہیں ،ملنے ،جلنے اور ایک دوسرے کی آ گاہی سے بہت سے معاملات میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے لیکن ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہو کر ایک دوسرے سے فاصلے قائم کر لیتے ہیں۔ اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ ہم میں ایک اجتماعی بری عادت یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ ،،ترم خاں،، ہیں ہماری عادت ہے کہ جب کوئی ہمیں یاد نہیں کرتا تو ہم کیوں کسی کو یاد کریں؟ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ضد اور انا کو چھوڑیں‘ بڑے بن کر دکھائیں ایک دوسرے کا بازو بنیں، مثبت روایات کو پروان چڑھائیں 50 سال بعد بھی اگر دیال سنگھ کالج جیسی درسگاہ کے طالب علم خوش گپیوں اور ایک دوسرے کا حال و احوال جاننے کے لیے مفادات سے بالاتر ہو کر نشست کر سکتے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے؟ یہ چوہدری محمود احمد سندھو کی تحریک تھی جس کو راقم اور چوہدری پرویز شہزاد نے عملی جامہ پہنایا۔ اب سال میں ایک دو بار یہ دوست اکٹھے ہونے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ اس ،،ریٹائرڈ لڑکوں کی بیٹھک،، میں سب سے زیادہ پیر نو بہار شاہ چہک رہے تھے۔ محفل دوستاں میں اشعار بھی سنائے اور ایک خوش لباس، خوش گفتار، منفرد شخصیت ثمر عباس سے بھی متعارف کرایا جو یقینا خوبصورت اضافہ ثابت ہو نگے لیکن نوبہار نے زمانے سے گلہ بھی کیا کہ،، تاریخ ہزاروں سال میں بس اتنی سی بدلی ہے کہ تب دور تھا پتھر کا اور اب لوگ ہیں پتھر کے۔ لیکن میں اتفاق ہرگز نہیں کرتا۔ آ ج بھی رواداری، برداشت، پیار، محبت و خلوص تمام دنیاوی مشکلات کا حل ہیں۔ اگر دشمنی کی بجائے دوستی کو ترجیح دی جائے اس احتیاط کے ساتھ کہ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔میرا مشورہ ہے کہ آ پ بھی اپنے پرانے دوستوں،بچپن کے ساتھیوں اورہم جماعتوں کیلئے تھوڑا سا وقت نکالیں،دکھ سکھ کے ساتھی بنیں، آسانیاں پیدا کریں اوردوسروں کیلئے آسانیاں بنیں اور زندگی سے لطف اٹھائیں،الحمد للہ ہم زندہ ہیں تو زندگی کا ثبوت دیں،مردہ دل،دنیا بے زار جیتے جی بھی مردہ یی ہوتے ہیں اسی لئے مایوسی کو ،،گناہ،، کہا گیاہے،اس یاد گار ’’بیٹھک،، کے اختتام پر مرحوم دوستوں اور اساتذہ کودعائے مغفرت کا پرخلوص نذرانہ اور شرکاء کی صحت و سلامتی کی رب کائنات سے خصوصی التجا بھی کی گئی۔