مسئلہ قادیانیت

’’مسئلہ قادیانیت‘‘ کے عنوان سے میری تازہ کتاب مارکیٹ میں آگئی ہے۔ یہ کتاب بڑی تقطیع کے 1080 صفحات پر مشتمل ہے۔ ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ میں شامل مضامین اس لحاظ سے وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں کہ ان کے مطالعہ سے اْس صبر آزما جدوجہد کے خدوخال سامنے آتے ہیں جو برصغیر پاک وہند کے علماء کرام اور مشائخ عظام نے مرزا غلام احمد قایانی کے دعویٰ نبوت کے خلاف نہایت استقامت سے جاری رکھی، حتیٰ کہ قادیانی 7 ستمبر1974 ء کو قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلہ کے تحت غیر مسلم قرار دیئے گئے اور اس فیصلہ کا اعلان اس وقت کے وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میںاپنے خطاب کے دوران کیا۔ اس کتاب میں قیام پاکستان سے قبل قادیانیت کے خلاف آوازہ حق بلند کرنے والی دینی شخصیتوں کا تذکرہ ہے اور 1953 اور 1974 ء کی عہد ساز تحریکوں کے احوال بھی شامل کئے گئے۔
میں ایک ناچیز ، خاکساراور گنہگار مسلمان اور یہ سعادت اور شرف کہ مسئلہ قادیانیت کے پورے پس منظر کا احاطہ کرتے ہوئے 1953ء  اور 1974 ء میں وطنِ عزیز میں جوش و خروش اور انتہائی ایمانی جذبہ سے چلنے والی تحفظ ختم نبوت کی دو تحریکیں جن میں ہزاروں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور تحریکوں کے نتیجے میں 7 ستمبر1974ء کا زریں دن طلوع ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی کے اس فیصلہ کا اعلان کیا کہ قادیانی۔ احمدی اور لاہوری۔ غیر مسلم قرار دیئے جاتے ہیں۔
 راقم کا ابتدائی عمر میں قادیانیوں کے متعلق یہ ذہن پختہ ہو چکا تھا کہ یہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور 1953ء کی تحریک تحفظ ختم نبوت میں جب میری عمر بارہ سال تھی مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں کے خلاف ایک نظم پڑھنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا۔ گرفتار شدگان میں ہمارے قائد مولانا محمد عمر لدھیانوی کا اسم گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جو احرار رہنما مولانا محمد یحییٰ لدھیانوی کے بڑے بیٹے اورمولانا حبیب الرحمن لدھیانوی سیکرٹری جنرل مجلس احرارِ اسلام کے بھتیجے تھے۔ شعور کی منزل میں داخل ہوتے ہی جن بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ان میں مولانا عبدالرحیم اشرف، مولانا تاج محمود، مفتی زین العابدین، مفتی سیاح الدین کا کا خیل، مرزا غلام نبی جانباز، مولانا عبیداللہ انور، مولانا محمد اجمل، آغا شورش کاشمیری، مولانا غلام غوث ہزاروی، حضرت مولانا مفتی محمود، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی رحمتہ اللہ علیہم جیسی برگزیدہ شخصیتیں شامل تھیں جنہوں نے عمر بھر قادیانی فتنہ کا تعاقب کیا اور اہل ِ اسلام پر قادیانیت کی حقیقت آشکار کی۔
خاکسار کو1974 ء میں 33 سال کی عمر میں فریضہ حج ادا کرنے کا موقع ملا تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کے دوران دعا کے لئے یہ الفاظ زبان سے ادا ہوئے کہ باری تعالیٰ! مرنے سے پہلے کوئی ایسا کام کرنے کی توفیق عطا فرمانا جو روزِ قیامت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کا ذریعہ و وسیلہ بن جائے۔
’’مسئلہ قادیانیت‘‘ میری اسی دعا کی قبولیت کا اشارہ ہے۔ قادیانی اگرچہ1974 ء میں غیر مسلم قرار دیئے گئے لیکن آنجہانی مرزا غلام احمد نے جب مصلح،مجد ّد، مسیح موعود اور پھر نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو وقت کے علماء اور مشائخ نے قادیانیت کا پیچھا کیا جن میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری،حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور مولانا انور شاہ کاشمیری کے اسماء گرامی خاص طورپر ذہن میں آرہے ہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد جب امیرِ شریعت مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری نے عملی سیاست ترک کرنے اور اپنی زندگی دینِ اسلام کی تبلیغ کیلئے وقف کردینے کا اعلان کیا تو جو حضرات اس جدوجہد میں انکے قدم بہ قدم ہم سفررہے ان میں چوہدری افضل حق، شیخ حسام الدین ، ماسٹر تاج الدین انصاری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا مرتضیٰ احمدخان میکش، مولانا محمد حیات پسروری، مولانا عبدالرحیم اشعر، مولانا تاج محمود، مولانا منظور احمد چنیوٹی کا ذکر ضرور آئے گا۔
30 مئی 1974ء کو جب قادیانیوں نے بڑی تعداد میں راولپنڈی سے واپس ملتان جاتے ہوئے ربوہ ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کو شدید تشدد کانشانہ بنایا تو اس کی خبرمصطفی صادق اور اس عاجز کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ وفاق لاہور میں اہمیت اور زیادہ تفصیل کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس رپورٹنگ کا سہرا جناب ادیب جاودانی مرحوم و مغفور کے سر ہے جو اس وقت فیصل آباد میں روزنامہ وفاق کے نمائندہ خصوصی تھے۔ سانحہ ربوہ پر ملک بھر میں جو شدید رد عمل ہوا اس میں روزنامہ وفاق کا کلیدی کردار رہا۔ جب حکومت نے اس حادثہ کی تحقیقات کے لئے جسٹس خالد محمودصمدانی (جسٹس کے ایم صمدانی) کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کیا تو اس کی تفصیلی رپورٹیں بھی وفاق میں شائع ہوتی رہیں۔ وفاق کی رپورٹنگ ٹیم میں جناب خالد کاشمیری، جناب نصراللہ غلزئی، جناب مجاہد منصوری اور جناب زاہد علی خاں کی رپورٹنگ بہت نمایاں رہی۔ اس پوری تحریک میں وفاق، علماء کرام ، مشائخ عظام، سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں نیز دینی عمائدین کے شانہ بہ شانہ شریک رہا۔ خاص طور پر وفاق کے مدیر اعلیٰ جناب مصطفی صادق جو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بہت قریب تھے،وہ اْنہیں اس تحریک کے مطالبات کی اہمیت سمجھانے اور انہیں قائل کرنے میں بہت پیش پیش رہے۔جناب ذوالفقار علی بھٹوجب قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے قومی اسمبلی کے فیصلہ کا ایوان میں اعلان کرنے جارہے تھے۔ تب وہ بھی بھٹو صاحب کے ساتھ شریک سفر رہے۔
1953 ء اور 1974 ء کی تحفظِ ختمِ نبوت کی عظیم الشان اور ایمان افروز اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو میں گندھی ہوئی تحریکوں کا تذکرہ مختلف کتابوں اور کتابچوں میں بکھرا ہوا ہے۔ راقم کو اپنی کم علمی اور کوتاہ قلمی کا پورا احساس اور ادراک ہے اور سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد جو مواد دستیاب ہو سکا ہے، وہ ’’مسئلہ قادیانیت‘‘ کے صفحات میں شامل کر دیا گیا ہے ہر ممکن سعی کے باوجود ہر علمی کام میں غلطی اور کوتاہی کا امکان نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر قارئین ایسی کوئی لغزش دیکھ پائیں تو راقم السطور کو اس سے ضرو ر آگاہ کریں تاکہ اگلے ایڈیشنوں میں اصلاح کی جاسکے۔
’’مسئلہ قادیانیت‘‘ القلم فائونڈیشن۔ لاہور نے شائع کی ہے۔
اس کا ہدیہ2500 روپے ہے۔ جو خریدنے کے خواہاں ہوں وہ علامہ عبدالستار عاصم سے ان کے موبائل نمبر 0300-0515101 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...