اتوار‘ 10 ربیع الاول 1446ھ ‘ 15 ستمبر 2024ء

بنگلہ دیش میں پہلی مرتبہ قائداعظم کی برسی کی تقریب۔
 ڈھاکہ میں نواب سر سلیم اللہ خان اکیڈمی کے زیراہتمام یہ تقریب دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں غرق کرنے اور قیام پاکستان کے گناہ میں شرکت نہ کرنے والوں کے علاوہ مودی سرکار کے ایجنٹوں کے گلیپر بھی چھری چلا رہی ہوگی۔ آج اگر فیض زندہ ہوتے تو وہ بھی تسلیم کرلیتے کہ بالآخر کئی برساتوں کے بعد خون کے دھبے دھل رہے ہیں۔ نفرت اور جھوٹ کا جو میک اپ چڑھا کر بھارت نے بنگالیوں کو پاکستان کیخلاف اکسایا تھا‘ وہ میک اپ اب اتر چکا ہے۔ اسلامی بنگلہ دیش کا چہرہ سامنے آگیا ہے۔ مقررین نے اس تقریب میں کیا خوب کہا کہ اگر قائداعظم محمد علی جناح نہ ہوتے تو آج بنگلہ دیش بھی نہ ہوتا‘ وہ ہمارے بھی بابائے قوم ہیں۔ جب پاکستان بنا تو مشرقی اور مغربی پاکستان پر مشتمل تھا‘ انہوں نے نہایت بصیرت کے ساتھ ہندو انگریز گٹھ جوڑ کو ناکام بنا کر مسلمانوں کو علیحدہ وطن لے کر دیا۔ امید ہے اب انکے سینوں میں بھی شکست و نفرت کی آگ کم ہوگی جو آج تک دل سے پاکستان کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور اسے کمزور کرنے کی سازشوں میں لگے رہتے تھے اور قائداعظم کی عظمت کو گہنانے میں لگے رہتے ہیں۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ تن تنہا ایک قائداعظم نے سرحدی گاندھی‘ بلوچستانی گاندھی اور انکے روحانی باپو مہاتما گاندھی کی تمام چالوں کو ناکام بنایا اور وطنیت کا پرچار کرنے والے نیشنلسٹ علماء￿ کے نظریات کو ہوا میں اڑاتے ہوئے پاکستان بنا کر دکھایا۔ یہ شکست خوردہ عناصر اور انکے حواری آج بھی زخمی سانپ کی طرح پھنکارتے نظر آتے ہیں۔ آج بھی اکھنڈ بھارت کا خواب دکھانے والا ملک انکی سرپرستی کرتا ہے۔ مگر حقیقت آج پھر 40 سال بعد بتا رہی ہے کہ دوقومی نظریہ اور قائداعظم کی سیاست ہی کامیاب تھی۔ اور کرائے کے بھونپو بالآخر بج بج کر خاموش ہوتے جا رہے ہیں۔ اور صرف 
ملت کا پاسبان ہے محمدعلی جناح
ہم جسم ہیں تو جاں ہے محمد علی جناح
لگتا ہیجس کا ٹھیک نشانے پہ جا کے تیر 
ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح
کا ترانہ ہر سو گونج رہا ہے۔ 
٭…٭…٭
معطل سینیٹر فلک ناز کی ایوان میں آمد پر حکومتی سینیٹرز کا بائیکاٹ۔
یہ واقعی عجیب بات ہے کہ جس سنییٹر کو دو دن کیلئے معطل کیا گیا تھا‘ وہ سزا مکمل ہونے سے قبل کس طرح اور کس کی اجازت سے سینیٹ کے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ اجلاس میں جب سینیٹر فیصل واوڈا اور دوسرے ارکان نے اس طرف توجہ دلائی تو چیئرمین سینیٹ نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں سنی ان سنی کر دی۔ جس پر یہ انوکھا واقعہ بھی سب نے دیکھا کہ سینیٹ سے حکومتی ارکان نے واوڈا کے ساتھ مل کر اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور واک آئوٹ کر گئے۔ ایسا شاید پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ اب فلک ناز کی دیکھا دیکھی باقی ارکان سینیٹ کا بھی اگر حوصلہ بلند ہونے لگا تو کیا سینیٹ کے اجلاس میں کارروائی کی جگہ گالیوں کا مقابلہ حسن منعقد ہوگا۔ کیونکہ گالیاں دینے والے جانتے ہیں کہ دو دن معطلی کا مطلب ایک دن نہ آنا ہے۔ اسکے بعد پھر وہ ممبر سینیٹر بن کر سینیٹ میں قدم رنجہ فرما سکتے ہیں اوراس کے بعد وہی بد زبانی کا مقابلہ ہوگا۔ سزا کا مطلب ہی یہ ہے کہ خوف پیدا کرکے لوگوں کو ایسا کام کرنے سے روکا جائے مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ بقول شاعر۔ 
یہ عجب ماجرا ہے کہ بروز عید قربان
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
 یہاں بھی دیکھ لیں کسی کو سزا و جزا کا خیال ہی نہیں۔ قانون کا خوف تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر یہ ہوتا تو سزا مکمل ہونے سے قبل وہ کسی بھی صورت یوں سینیٹ کے اجلاس میں شریک نہ ہوتیں۔ کیا فلک ناز نہیں جانتی تھیں کہ انکی معطلی میں ابھی ایک دن باقی ہے۔ یا وہ سمجھتی ہیں کہ عورتوں کی سزا بھی آدھی ہوتی ہے۔ یہ واقعہ ہمارے ملک میں قانون کی بے بسی اور بااثر افراد کی بالادستی کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔ کسی اور کی مثال دیکر کوئی اور کیا کہہ سکتا ہے۔ 
٭…٭…٭
اپوزیشن کے ساتھ ہوں‘ آئینی ترمیم پر ووٹ نہیں دینگے‘ فضل الرحمان۔
 سچ کہیں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ فضل الرحمان کیا چاہتے ہیں۔ ان کی سیاسی قلابازیاں دیکھ کر تو عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔ ایک لمحے میں وہ کبھی لڑھک کر یہاں ہوتے ہیں‘ دوسرے لمحے وہاں لڑھک جاتے ہیں۔ اب ہم تو انہیں تھالی کا بینگن بھی نہیں کہہ سکتے۔ کبھی وہ بلبل بن کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ چمن میں چہکتے ہیں‘ اور کبھی پی ٹی آئی کے گلشن میں کوک رہے ہوتے ہیں۔ اردو کا ایک محاورہ ہے‘ ’’گنگا گئے تو گنگارام‘ اور جمنا گئے تو جمنا داس‘‘۔ انکی سیاسی قلابازیوں سے سب حیران ہیں۔ اب نجانے کس ترنگ میں آکر یا آصف زرداری کی دوستی میں بے حال ہو کر یہ فرمائش کر رہے ہیں کہ خیبر پی کے میں گورنر راج نافذ کیا جائے۔ اس وقت وہاں پیپلزپارٹی کا گورنر ہے اور وہ زرداری سے دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں۔ اب اسکے جواب میں پی ٹی آئی والے فی الحال سخت جواب دینے کے بجائے منت سماجت کر رہے ہیں کہ جے یو آئی‘ آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہ دے۔ غالباً جے یو آئی والے اس پر راضی بھی ہیں۔ دوسری طرف حکومتی اتحاد نمبر پورے ہونے کا اعلان کرتا پھرتا ہے۔ اب سمجھ نہیں آتی کہ فضل الرحمان کیا گیم کھیل رہے ہیں۔ فی الحال تو انکی سیاست ’’اک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘‘۔ وہ بیک وقت دونوں سے تعلقات نبھا رہے ہیں مگر یاد رہے دو کشتیوں میں پائوں رکھنے والا کسی بھی وقت نقصان اٹھا سکتا ہے۔ شاید مولانا کیلئے یہ بات غلط ثابت ہو۔ کیا پتہ وہ دونوں طرف سے فائدہ میں ہی ہوں۔ آج کی بات نہیں‘ جبہ و دستار والوں کی ہمیشہ سے یہی روش رہی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا:
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
٭…٭…٭
ٹریفک وارڈنز کو روزانہ 25 چالان کا ٹارگٹ۔ 
آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ٹریفک پولیس کی بڑی تعداد کے ہوتے ہوئے بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ختم ہونا تو دور کی بات ہے کم بھی نہیں ہوتی۔ آئے روز نت نئے تجربات ہوتے ہیں۔ کبھی روزانہ ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ ہر وارڈن اتنے چالان کریگا اور کبھی یہ اعلان واپس لیا جاتا ہے۔ ابتداء میں وارڈنز کا نظام اور وردی جب آئی تو سب نے تعریف کی تھی کہ یہ پڑھے لکھے نوجوان ٹریفک نظام میں پھیلی بدنظمی ختم کریں گے‘ سڑکوں پر ٹریفک قوانین پر عمل ہوتا نظر آیا بھی آیا مگر وہی چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات والا معاملہ سامنے آگیا۔ نہ ٹریفک قونین کی خلاف ورزی رکی‘ نہ بدمست نوجوانوں اور ڈرائیوروں کی لاپروائی اور بے خوفی میں کمی آئی۔ روزانہ دیکھ لیں درجنوں حادثے ہوتے ہیں‘ اشارے توڑے جاتے ہیں‘ ون وے کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ایسا لگا رہتا ہے۔ ٹریفک وارڈنز کی توجہ اب ڈیوٹی سے زیادہ موبائل فونز پر ہوتی ہے۔ ٹارگٹ چالان سے لوگوں میں بے شک خوف پیدا ہوگا مگر وہ اس تجربے سے پہلے بھی گزر چکے ہیں۔ عام چالان ہوں یا ای چالان‘ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی عام ہے۔ اب یا تو سختی سے دیگر ممالک کی طرح پہلی دفعہ بھاری چالان‘ دوسری دفعہ گاڑی ضبط اور تیسری دفعہ تاحیات ڈرائیونگ پر پابندی عائد کی جائے تو شاید یہ بات بن جائے ورنہ یہ قانون شکن عناصر قابو میں آنے والے نہیں۔ جو انکی سفارش کرے‘ اس پر دگنا چالان کی رقم جرمانہ عائد کی جائے۔ ورنہ سڑکوں پر موت بانٹنے والے یہ ہرکارے یونہی دندناتے پھریں گے۔ دیکھا یہ بھی چائے کے نشئی‘ کم عمر لڑکوں کو لائسنس کون بنا کر دیتا ہے اور اگر گھر والے انہیں گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے کو دیتے ہیں تو پھر انہیں بھی تو پتہ چلے کہ سزا کیا ہوتی ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...