ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے  قرضے معاف کرنے کی ضرورت

وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی غربت اور قرضے اجتماعیت کے تصور کو دھندلا رہے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے واجب الادا قرضے معاف کئے جائیں۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سمٹ آف دی فیوچر سے پہلے ورچوئل گلوبل اجلاس  سیخطاب کے دوران کہا کہ پائیدار ترقی کے حصول کے لیے عالمی فریم ورک میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا تباہی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔کل تک استعمال ہونے والی گلوبل وارمنگ کی اصطلاح اب گلوبل بوائئلنگ میں بدل چکی ہے۔جس سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ نقصانات کی شدت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہورہا ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں تو یہ تک بھی کہا گیا ہے کہ 2025ء میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی ہو جائے گی جبکہ 2040ء تک پاکستان بدترین قحط سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ عام ماحولیاتی آلودگی اور موسمی عوامل ،درجہ حرارت، نمی اوربے موسمی بارشیں متعدد بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے لہٰذا پالیسیوں کاعالمی سطح پر بنایاجانا ضروری ہے۔اجلاس کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے پر جانبدارانہ طرز عمل اجتماعیت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ قرضوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اختراعی مالیاتی حل نکالنا ہو گا۔پاکستان کی طرح کئی ممالک اپنے طور پر بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ان تبدیلیوں کے معیشت پربھی برے اثرات پڑ رہے ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ان ممالک کے قرضے رائٹ آف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اسی ماہ ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس  ہو رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اجلاس میں شرکت اور خطاب کریں گے۔یہ بہترین عالمی فورم ہے جس پر وزیراعظم عالمی برادری کی توجہ اس طرف مبذول کرا سکتے ہیں۔ حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ نہ صرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کے واجب الادا قرضے معاف کیے جائیں بلکہ ان ممالک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے آئندہ بلا سود قرضے دیے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...