آرمی چیف کا قوم کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا  امن ہر صورت برقرار رکھنے کا عزم

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ قوم کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا امن ہر صورت برقرار رکھا جائیگا۔ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق آرمی چیف نے گزشتہ روز اورکزئی ایجنسی کا دورہ کیا جہاں کورکمانڈر پشاور نے ان کا استقبال کیا۔ آرمی چیف نے یادگار شہداء پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور دہشت گردوں کے گٹھ جوڑ کو شکست دینے اور غیرقانونی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر آرمی چیف کو سکیورٹی کی مجمومی صورتحال اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں پر بریفنگ دی گئی۔ جنرل سید عاصم منیر نے اس دورے کے دوران وادی تیراہ اور گرد و نواح میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لینے والے جوانوں سے ملاقات کی اور انکے بلند حوصلے اور ہر قسم کے خطرے کیخلاف موثر جواب دینے کی تیاری کو سراہا۔ آرمی چیف نے افسران اور جوانوں سے بات چیت بھی کی اور سیکورٹی فورسز کیلئے مقامی آبادی کی حمایت کو سراہتے ہوئے کہا کہ علاقے میں امن کو برقرار رکھنے میں مقامی آبادی کا مثبت کردار ضروری ہے۔ قوم کی قربانیوں سے حاصل کیا گیا امن ہر قیمت پر برقرار رکھا جائیگا۔ 
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مختلف سازشوں بالخصوص دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کی آزادی و خودمختاری پر ضرب لگانا اور اسکی سلامتی کمزور کرنا بھارت سمیت پاکستان کے تمام بیرونی بدخواہوں کا مذموم ایجنڈا ہے جسے وہ بالخصوص امریکی نائن الیون کے بعد سے اب تک بروئے کار لائے ہوئے ہیں۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے جذبے سے محروم ہیں جبکہ بعض سیاسی عناصر خالصتاً اپنی سیاست کے تناظر میں ملک کو پھلتا پھولتا اور اسکی معیشت و معاشرت کو مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتے چنانچہ ملک کے بیرونی دشمنوں کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف ان اندرونی عناصر کو استعمال کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ اندرونی عناصر کبھی علاقائیت‘ کبھی قوم پرستی‘ کبھی لسانی اور کبھی مذہبی بنیادوں پر وفاق اور اسکی اکائیوں میں منافرت کی فضا اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کیلئے وہ اپنے بیرونی سرپرستوں کے پاکستان دشمن ایجنڈے کی انکے مقاصد کے عین مطابق تکمیل کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کیخلاف ان گھنائونی بیرونی سازشوں سے ہی دہشت گردی کے ناسور کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ 
یہ امر واقع ہے کہ امریکی نائن الیون سے پہلے پاکستان کی سرزمین مجموعی طور پر دہشت گردی کی سازشوں سے محفوظ تھی اور لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ملک کے کسی نہ کسی حصے بالخصوص بلوچستان میں کبھی کبھار دہشت گردی کی وارداتیں ہو جاتی تھیں تاہم نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے نیٹو فورسز کے ذریعے افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جنگ کا آغاز کیا تو امریکی دھمکی کی بنیاد پر اس وقت کے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف نے اس جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار قبول کرلیا اور افغان جنگ میں اسکی لاجسٹک سپورٹ کا آغاز کر دیاچنانچہ اسکے ردعمل میں طالبان اور افغانستان کے دوسرے انتہاء پسند گروپوں نے پاکستان میں بھی خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ 
یہ حقیقت ہے کہ افغان جنگ کے دوران امریکی حمایت کے ردعمل میں جتنا جانی اور مالی نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑا‘ اتنا نقصان امریکہ سمیت نیٹو کے رکن 50, 45 ممالک کا بھی نہیں ہوا۔ اسکے باوجود امریکہ کی جانب سے پاکستان سے ڈومور کے تقاضے تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ اس طرح پاکستان اور امریکہ کے مابین سفارتی سطح پر کشیدگی اور سردمہری کی فضا بھی مستحکم ہوتی رہی جس کا ہمارے شروع دن کے دشمن بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھانے کیلئے اپنے سازشی منصوبے تیار کئے۔ اس نے ایک جانب تو اپنی ایجنسی ’’را‘‘ کا نیٹ ورک افغانستان اور ایران  کی سرزمین سے منسلک کرکے پاکستان کے اندر بلوچستان اور خیبر پی کے تک پھیلایا اور اسکے ساتھ ساتھ اس نے بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی سرپرستی اور فنڈنگ بھی شروع کر دی۔ اسی طرح بھارت نے خیبر پی کے میں افغانستان کے مفادات سے وابستہ قبائلی عناصر کو جو ڈیورنڈ لائن کے 100 سالہ معاہدے کی تکمیل کے بعد خود کو پاکستان کی سرحدوں کا پابند نہیں سمجھ رہے تھے‘ ہلہ شیری دیکر پاک افغان سرحد ختم کرنے کی ترغیبات دینا شروع کر دیں۔ یہ بھارتی مقاصد درحقیقت اسکی وہ بدنیتی ہے جو وہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کے معاملہ میں شروع دن سے رکھتا ہے اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھارت کو اپنی عسکری تنظیم مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کا موقع مل گیا تو اب وہ باقیماندہ پاکستان کو بھی سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ سے دوچار کرنے کی تگ ودو میں ہے اور بدقسمتی سے ان بھارتی سازشوں میں بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر اور کالعدم تحریکِ طالبان کے برگشتہ عناصر  بطور چارہ استعمال ہو رہے ہیں جن کی بھارت اسلحہ اور فنڈنگ سمیت پوری سہولت کاری کرتا ہے۔ 
یہی وہ پس منظر ہے جو آج بالخصوص بلوچستان اور خیبر پی کے میں دوبارہ پھیلتی دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ افواج پاکستان نے تو بہرصورت بیرونی سرحدوں پر ملک کے دفاع کے ساتھ ساتھ اندرونی امن و استحکام کیلئے بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں جن میں ہماری بہادر و جری افواج کی جانب سے کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا جبکہ ملک کے دفاع اور دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں افواج پاکستان کی جانی اور مالی قربانیاں بے مثال ہیں۔ اسی تناظر میں  ملک کے بدخواہ اور برگزشتہ عناصر اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بطور خاص سکیورٹی فورسز کے دستوں‘ اہلکاروں اور انکی عمارات و تنصیبات کو ٹارگٹ کرتے ہیں جن کا بنیادی مقصد سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست کرنا ہے مگر افواج پاکستان کے ملک کے دفاع کیلئے قربانیاں دینے کے جذبے میں کبھی کمی نہیں آئی جبکہ ملک کے اندر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے ہماری سکیورٹی فورسز ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ جب وہ دہشت گردوں کی کسی کارروائی پر جوابی کارروائی کرتی ہیں اور انکے ٹھکانوں تک پہنچ کر مسکت جواب دیتی ہیں تو علیحدگی پسند عناصر اور بالخصوص ایک سیاسی جماعت کے میڈیا سیل کی جانب سے سکیورٹی فورسز اور انکی قیادتوں کیخلاف شرانگیز اور بے ہودہ پراپیگنڈا شروع کر دیا جاتا ہے جس کا مقصد فوج کے ساتھ عوام میں بدگمانیوں اور منافرت کی فضا پیدا کرنا ہے۔ 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں باالخصوص سوشل میڈیا پر افواج پاکستان کی بطور ادارہ کردار کشی کی مہم بادی النظر میں اسی سلسلہ کی کڑی ہے جن میں ملوث افراد کے خلاف قانونی اور عدالتی کارروائی پر بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب گرد اچھالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی جبکہ پاکستان کے بدخواہ بیرونی عناصر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اسی زہریلے مجہول پراپیگنڈے کو دنیا بھر میں پھیلا کر پاکستان کو اقوام عالم میں تنہاء کرنے کی سازشیں بروئے کار لاتے ہیں۔ 
اس زہریلے پراپیگنڈے کے باوجود افواج پاکستان اپنی قیادت کے ماتحت ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور ملک کے بدخواہ اندرونی عناصر کے پھیلائے انتشار و خلفشار پر قابو پانے اور امن و امان کی فضا قائم کرنے کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں تو اس کیلئے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح انکی پشت پر کھڑی ہے چنانچہ آج دفاع وطن اور اندرونی امن و استحکام کیلئے قوم اور فوج کا اتحاد ایک مثال بن چکا ہے۔ اس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا تحرّک اور جذبہ اور انکی قومی معیشت کے استحکام کیلئے بھی لگن بے مثال ہے جس کی بنیاد پر آج ملک امن و امان کی جانب واپس لوٹتا نظر آرہا ہے اور ملک کی معیشت بھی مستحکم ہو رہی ہے جس کے لامحالہ ملک کے عوام کو ہی ثمرات ملیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...