گلزار ملک
والدین اور اساتذہ کا احترام اور خیال ہر لحاظ سے ہر کسی پر فرض ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ لمبی زندگی پائیں بلکہ اپنی زندگی میں کوئی ایسا نیک اور اچھا عمل کر جائے جس سے دنیا آپ کو صدیاں یاد رکھے جی ہاں یہ عہدے اقتدار کی بہاریں جوانی عزت دولت اچھی شہرت یہ سب کچھ ہمیشہ رہنے والی چیزیں نہیں ہیں مگر افسوس کہ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ چیزیں ہمیشہ صدا رہنے والی نہیں ہیں تو پھر گھمنڈ کس بات پر ہے۔ شاید یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہم ترقی نہیں کر سکے لہذا ہمیں ایک دکھاوا اور جھوٹا رکھ رکھاؤ اور ہر وہ کام جس سے کسی دوسرے کا فائدہ نہیں نقصان ہوتا ہو اسے چھوڑنا ہوگا۔ کسی دوسرے کو دکھ دیں اور وہ بھی اپنے اساتذہ کو یہ تو اپنے آپ سے بہت بڑا ظلم ہے۔
یہاں پر مجھے ایک اعلی درجے کے بہترین استاد اور بہت بڑے دانشور اشفاق احمد کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے کسی زمانے میں آپ اٹلی کے شہر روم میں رہتے تھے وہاں پر انکا ٹریفک چالان ہو گیا۔ مصروفیت کے باعث ان کو چالان بھرنے میں تاخیر ہو گئی۔ انہیں گرفتار کر کے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔ جج صاحب نے پو چھا کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پھر چالان بھی ادا نہیں کیا کیوں۔؟ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ میں یونیورسٹی پروفیسر ہوں اور مصروفیت کی بنا پر وقت پر چالان ادا نہیں کر سکا۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ میرے یہ الفاظ ادا کرنے کی دیر تھی کہ جج صاحب A teacher in the courtکا نعرہ لگاتے ہو ئے کھڑے ہو گئے اور ان کے ساتھ عدالت میں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے مجھے کرسی پیش کی گئی اور چالان معاف کردیا گیا اور عدالت میں لائے جانے پر معذرت کی گئی۔ اشفاق صاحب فرماتے ہیں کہ اسوقت مجھے یہ نقطہ سمجھ آیا کہ ان ممالک کی ترقی کا راز یہ ہے کہ وہ لوگ استاد کا احترام کرتے ہیں۔ اشفاق صاحب کو اللہ پاک غریق رحمت کرے کروٹ ، کروٹ جنت نصیب کرے ان جیسا عظیم استاد اعلیٰ درجے کا مفکر اور مدبر تو کسی بھی معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہوتا ہے ان کیلئے محبتیں نچھاور کرنا اور عقیدتیں پیش کرنا تو فرضِ عین ہوتا ہے۔
اور اب آجائیں ہمارے وطن عزیز کے اساتذہ سے ہم کیا سلوک کر رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو ان چند باتوں سے ہو جائے گا کہ اساتذہ کو تو ہم نے سب سے گھٹیا حقیر اور فارغ سمجھ رکھا ہے ان بیچارے اساتذہ کا احترام ہم کچھ ایک عرصہ سے ایسے کرتے آرہے رہے ہیں کہ مردم شماری جب ہو پولیو کے قطرے بچوں کو پلانا ہوں اور در در جا کر کوئی اور کام کرنا ہو ووٹ بنانے ہوں الیکشن ڈیوٹی کرنا ہو یہ سب کچھ ہم نے انہیں ایک احترام کے طور پر اساتذہ پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے فراہم کر رکھا ہے افسوس در افسوس کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں برسر اقتدار رہیں ان میں سے کسی نے بھی محکمہ تعلیم اور اس سے وابستہ اساتذہ کے متعلق کسی نے کچھ نہیں سوچا اگر کچھ سوچا ہے تو منفی سوچ ہی سوچی ہے یعنی استادوں کو دکھ دینا پریشان کرنا یہ سب کچھ ہم ایک احترام کے طور پر اساتذہ پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے کر رہے ہیں تمام تر سہولیات ہم ہر دور میں دیگر محکمہ جات کو دیتے ہیں اس بیچارے محکمہ کو ہم نے بالکل حقیر سمجھ رکھا ہے لیکن آج ہم جو کچھ بھی ہیں صرف اس استاد کی بدولت ہے کاش کہ یہ بات ہمارے حکمرانوں کو بھی سمجھ میں آجائے۔ پنجاب کے چند مختلف سکولوں میں وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے زیور تعلیم سے آراستہ ہونے والے بچوں کو دودھ کے پیکٹ دیے مگر انتہائی افسوس کے ساتھ جو انہیں تعلیم دینے والے اساتذہ ہیں انہیں کچھ فراہم نہیں کیا اور اب رہی سہی کثر صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے نکال دی ہے تمام سکولوں کا نظام بہترین طریقے سے بہترین ٹائم پر چل رہا تھا انہوں نے گزشتہ ایک مہینے سے سکولوں کے اندر ٹائم کو ایسا تبدیل کیا ہے کہ بچوں کو چھٹی 12 بج کر 30 منٹ پر جب کہ اساتذہ کو چھٹی دو بجے یہ صرف اتنا بتا دیں کہ ان اساتذہ کو دو گھنٹے تاخیر سے چھٹی دینا کیا یہ احترام کے زمرے میں آتا ہے اور پھر ایسا کرنے سے وزیر تعلیم کے کیا مقاصد ہیں یہ میری سمجھ سے باہر ہے کہ انہیں دو گھنٹے فارغ وہاں بٹھا کر سکولوں میں یہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں یا کیا بتانا چاہتے ہیں میری تمام حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے اساتذہ کا احترام کریں اور محکمہ تعلیم کے بارے میں سوچیں اس زبردست مہنگائی کے دور میں تعلیم اس قدر حاصل کرنا مشکل ہو گئی ہے کہ یہ غریب کی پہنچ سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے سکولوں اور کالجوں کی فیسیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں جو کام کرنے والے ہیں وہ نہیں کرتے وہ کام یہ ہے کہ گورنمنٹ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے نظام کو سستا کرے جو غریب آدمی یہ فیسیں نہیں دے سکتا ان کو فری پڑھایا جائے صوبائی وزیر تعلیم سے درخواست ہے کہ اللہ نے اگر آپ کو موقع فراہم کیا ہے تو اس سے کچھ ایسے کام کر جائیں کہ جس سے دنیا آپ کو ہمیشہ یاد رکھیں اس طرح نہ کریں کہ آپ کے جانے کے بعد لوگ کہیں کہ وہ اچھے نہیں تھے