''آدھی گواہی '' کوپوری گواہی ہی سمجھیں!!  

''آدھی گواہی'' محترمہ نسیم خان سیما کے زیرِ اشاعت شعری مجموعہ کا نام ہے۔ اس عنوان کے پڑھتے ہی قاری چونک جاتا ہے اور اسے ان مغرب زدہ آزاد خیال خواتین کا خیال آتا ہے جو قرآنِ مجید میں عورت کی آدھی گواہی پر طعنہ زن ہیں اور اسے مساواتِ زن کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ لیکن کتاب کا سنجیدہ مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ شاعرہ اسلام کی ابدی اور آفاقی تعلیمات کی پرزور حامی ہیں اور اسلام نے عورت کو جو مقام و احترام دیا ہے اس کی شاعری میں پرچارک ہیں۔ وہ کہتی ہیں

ہمیں تسلیم ہے آدھی گواہی ہے جو عورت کی 
کہ یہ فیصلہ ہے، فیصلہ ہے دستِ قدرت کا 
مگراِس فیصلے کی آڑ لے کر دنیا والوں نے 
عجب توقیر دی ہم کو کہ انساں ہی نہیں سمجھا
ایک نظم بعنوان '' ہماری قدر کرو'' میں وہ شکوہ بر لب ہیں کہ ہمیں یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ عورت کی تو اسلام میں آدھی گواہی ہے اور اِس کو بنیاد بنا کر عورت کی توہین کی جاتی ہے اور اسے مرد سے کمتر گردانا جاتا ہے۔ ان کی را میں یہ زیادتی کم عقل اور غیر مہذب لوگوں کی بدولت ہے اور مذہب کو بدنام کرنے کا طریقہ و وطیرہ ہے جبکہ خدا نے عورت کو حقوق دئیے ہیں اور عورتوں کے احترام کے احکامات واضع ہیں۔ اِس ضمن میں نہایت اختصار سے میں عرض کروں گا کہ اسلام دشمن اذہان کی طرف سے اسلام پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ عورت کی آدھی گواہی عورت کی توہین ہے اور یہ قرآنی حکم مساواتِ مرد و زن کے نظریہ کے خلاف ہے۔ جو خواتین عورتوں کے حقوق کی علمبردار ہیں اور Feminism کی پرچارک ہیں وہ عورت کی آدھی گواہی پر طعنہ زن ہیں۔مغرب زدہ خواتین اور غیر مسلم خواتین اس پر خندہ زن اور طعنہ بر لب میں پیش پیش ہیں۔ 
 میں اس کتاب کے مقصد کی روشنی میں اس موضوع پر اختصار سے روشنی ڈالنا اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہوں۔قرآنِ مجید میں صرف مالی معاملات پر کہا گیا کہ اگر ایک عورت کو گواہی میں بھول چوک کا اندیشہ ہو تو دوسری عورت اس کی مدد کرے۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی عرب خواتین تعلیم یافتہ نہیں تھیں اور وہ اتنی پراعتماد بھی نہیں تھیں کہ وہ قاضی کی عدالت میں یا پنچایت میں گواہی دے سکیں کیونکہ عرب معاشرہ میں عورت کو گھروں میں محصور ہی رکھا جاتا تھا۔ ایسی صورت میں ایک  عورت کو دوسری عورت کا ساتھی ہونا ایک نفسیاتی امداد تھا نہ کہ عورت کی توہین مقصود تھی۔ یہ صرف ایک نفسیاتی حوصلہ افزائی تھی جو کہ اس دور کی ناخواندہ عورت کی تشویق تھی۔ یہ ناخواندہ خاتون کے لیے سہولت کاری تھی۔ اگر کوئی عورت کہتی کہ اسے معاون کی ضرورت نہیں اور وہ اکیلی گواہی دے سکتی ہے تو اسلام نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ آج کے تعلیم یافتہ دور میں تمام اسلامی ممالک میں ہر معاملہ میں ایک عورت کی گواہی کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ وہ خود انحصاری اور خود اعتمادی کی منزل پر ہے۔ علاوہ ازیں یہ امر ذہن میں رہے کہ قرآن ابدی اور آفاقی کتاب ہے اور تاقیامت اِس کے احکامات جاری و ساری رہیں گے اور یہ احکامات ناقابلِ تبدیلی ہیں۔ اسلامی اجتہاد کی روشنی میں ان احکامات پر عمل پیرا ہونا اسلام کی دائمی حقیقت کا غمّاز ہے۔ اگر آج ایک عورت کہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہے اور پراعتماد ہے اور اسے گواہی میں کسی مددگار عورت کی ضرورت نہیں تو اسلام اس سلسلہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ لہٰذا آج کے دور میں ایک عورت کی گواہی '' پوری گواہی'' ہو گی اور اِسے '' آدھی گواہی'' نہیں کہا جا سکتا۔ اسلامی اجتہاد تاقیامت ہر مسئلہ کا حل دیتا ہے۔ اسی لیے قرآنِ مجید میں اسلام کو '' دینِ قیّم '' کہا گیا ہے۔ قرآن ِ مجید میں سورہ نساء میں عورتوں کی بابت ذکر ہے۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا لباس یعنی راز دار، ہمدرد اور زینّت قرار دیا گیا ہے۔ خطبہ  حجتہ الوداع میں پیغمبرِ اسلام نے عورتوں کے حقوق کا خصوصی ذکر کیا۔ نسیم خان سیما نے اس کتاب میں اسلامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی نظموں میں اس دردناک اور افسوسناک حقیقت کو آشکار کیا ہے کہ ہمیں '' آدھی گواہی'' کا حقدار سمجھ کر مردوں نے '' آدھا انسان'' سمجھ لیا اور عورت کو تضحیک و تذلیل کا شکار بنا دیا جبکہ اللہ اور اللہ کے رسول ؐنے عورت کے حقوق اور احترام کے واضع احکامات دئیے ہیں۔ اسلام میں ہمیں عورت کو حصولِ تعلیم ، جائیداد، کاروبار اور پسند کی شادی کا اختیار دیا گیا ہے۔ انی کی ان نظموں میں عورت پر جبر و تشدّد پر بہت پر تاثیر اور فکر انگیز منظومات ہیں۔ آپ نے جہاں عورت کی مظلومیّت کا رونا رویا ہے وہاں عورت کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے بہت ولولہ انگیز نظمیں لکھی ہیں۔ عورت کے لیے '' کھلونا '' اور '' گڑیا'' کے الفاظ کااستعمال عورت کو کمزور ثابت کر نا ہے اور اسے '' صنفِ نازک'' کا خطاب دینا دراصل عورت کو '' نازکی اس کے لب کی کیا کہیے '' پر سر دھننا ہے۔ عورت کو صرف '' جنسِ جنسیات'' بنانے کے مترادف ہے۔ وہ عورت کو عزم و ہمّت اور بلند حوصلگی کا پیغام دیتی ہیں۔ ایک نظم میں کہتی ہیں
راہیں تو دشوار تھیں اپنی ، قدم قدم دشواری تھی 
لیکن رب کا ش کر کہ میرے جذبوں میں بیداری تھی
دنیا داری کے طالب کو دنیا داری راس آئی 
ان کو رب نے عزّت بخشی ، جن کو عزّت پیاری تھی
کتاب میں بہت سی نہایت عمدہ نظمیں ہیں جو عورت کے بارے میں عورت کے حالات اور عورت کی حیثیت کے بارے میں ہیں۔ آپ کی ہر نظم مختصر اور نتیجہ خیز ہے۔ بعض نظمیں غزل نما اور رنگِ تغّزل سے بھرپور ہیں۔ غمِ ذات کو غمِ کائنات بناتے ہوئے کہتی ہیں
پھول تھی مثلِ خار ہو گئی ہوں
راستوں کا غبار ہو گئی ہوں
یہ شعر اس تلخ حقیقت کا غمّاز ہے کہ سالم عورت کو '' ادھوری عورت'' کہنے والوں نے پھول جیسی عورت کو راستے کا غبار بنا دیا۔یہ شعر اس کتاب کا نمائندہ شعر ہے۔ بیدل دہلوی نے سچ کہا تھا
ہر کجا رفتم غبارِ زندگی درپیش بود
یا رب ایں خاکِ پریشاں از کجا برداشتم

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...