پاکستانی سیاستدان سیاسی بونے اور امریکی عالمی لیڈر کیوں؟

دنیا کے تقریباً تمام جمہوری ممالک کے دارالحکومتوں میں جلسے جلوسوں کے معاملے میں سخت قوانین موجود ہیںاور ان پر ان کی روح کے مطابق عمل ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں تنازعات جنم نہیں لیتے ہمارے ہاں ایسا نہیں تھا جس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے حکومت نے باقاعدہ قانون سازی کی ہے۔قوانین عمل درآمد کیلئے ہوتے ہیں۔جس معاشرے میں قانون کی پاسداری نہیں ہوتی وہ پنپ نہیں سکتا۔سیاست میں برداشت، تحمل اور رواداری ضروری ہے۔اپنی بات تہذیب کے دائرے میں بھی ہوسکتی ہے،جس کا اثر دیرپاہوتا ہے۔جمہوری رویے ہی ملک کو سیاسی اور معاشی استحکام سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔جو پاکستانی یہ سوچتے ہیں کہ پاکستانی سیاستدان سیاسی بونے اور امریکی سیاستدان عالمی لیڈر کیوں بنتے ہیں؟انہیں بتاتا چلوں کہ دنیا میں ترقی کرنے والے ملکوں نے مثبت رویوں کے تحت اپنا آپ منوایا ہے۔گزشتہ روزریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس کے درمیان پہلا صدارتی فلاڈیلفیامیں مباحثہ ہوا ہے۔مباحثے سے قبل ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس نے اسٹیج پر ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملایا جبکہ مباحثے میں دونوں نے ایک دوسرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔کملا ہیرس نے کہا کہ ہمیشہ مڈل کلاس طبقے کی بہتری کے لیے آواز اٹھائی، ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں واپس نہیں جانا چاہتے، ان کے دور میں ہر طرف افراتفری تھی،امریکی چاہتے ہیں کہ ملک کو متحد کرنے کی ضرورت ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس کوئی پلان نہیں،امریکی ورک فورس کے سپورٹ کرنے کے لیے ہم نے کام کیا، ٹرمپ دور میں پھیلائے گئے گند کو صاف کیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ میرے پاس معیشت سے متعلق پریشان امریکیوں کی مدد کا پلان ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے سول جنگ کے بعد جمہوریت پر بد ترین حملہ کیا، ان کے دور میں ملک میں پبلک ہیلتھ کی حالت صدی کی بدترین تھی، ہم نے جو کیا اور جو کرنا چاہتے ہیں وہ امریکیوں کی امید اور خواہش ہے، ڈونلڈ ٹرمپ اسقاطِ حمل کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں، ان کی اسقاطِ حمل کی پالیسی امریکی خواتین کی توہین ہے، ٹرمپ نے امریکیوں کو بد ترین بے روزگاری سے دو چار کیا۔کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 81 ملین لوگوں نے مسترد کر دیا،انہیں اس عمل سے گزرتے ہوئے مشکل حالات پیش آئے، ایسے شخص کو صدر بنانے کے متحمل نہیں ہو سکتے جو ووٹرز کی رائے پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کرے، ٹرمپ ماضی میں یہ کوشش کر چکے ہیں، میں نے بطور نائب صدر دنیا بھر کے دورے کیے، میں نے جس عالمی رہنما سے بات کی اسے ٹرمپ پر ہنستے ہوئے پایا، میں نے کئی ملٹری لیڈرز سے بات کی جن کی اکثریت کے ساتھ آپ نے کام کیا، وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ عزت کے قابل نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند سال میں امریکیوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا، میرے دور میں متوسط طبقہ خوش حال تھا، بائیڈن اور کملا نے ملک کو تباہ کیا، میرے دورِ حکومت میں افراطِ زر نہیں تھا، ان کے دور میں افراطِ زر سب سے زیادہ ہے، کملا ہیرس نے جو بائیڈن کے معاشی پلان کی کاپی کی،ان کے پاس معیشت کی بہتری کے لیے کوئی پلان نہیں، پروجیکٹ 2025ء سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے بقول چین اور شمالی کوریا خوفزدہ ہیں، روس خوفزدہ تھا، میں نے نارتھ اسٹریم 2 پائپ لائن کو بند کیا، بائیڈن نے پہلے ہی دن نارتھ اسٹریم 2 پائپ لائن کو بحال کیا، انہوں نے ملک میں ایکسل پائپ لائن کو بند کیا، بائیڈن نے روس کو پائپ لائن تعمیر کرنے دی جو پورے یورپ کو جاتی ہے، بائیڈن کی جگہ آج کملا مباحثہ کر رہی ہیں جنہیں کوئی ووٹ نہیں ملا، بائیڈن کو 14 ملین ووٹ ملے تھے، آپ جمہوریت کے لیے خطرے کی بات کرتے ہیں، بائیڈن کملا سے نفرت کرتے ہیں، وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں، کملا نے ایک بھی ووٹ لیے بغیر بائیڈن کو باہر کر دیا، کملا پہلی خاتون تھیں جو الیکشن مہم چھوڑ گئی تھیں کیونکہ یہ ناکام ہو گئی تھیں، اب یہ الیکشن لڑ رہی ہیں، میں انہیں نہیں مانتا، روس یوکرین جنگ کا خاتمہ امریکا کے بہترین مفاد میں ہے۔اس مباحثہ میں نہ امریکی فوجیوں کو للکارا گیا،نہ کسی امریکی بیٹی کوللکار کر بے ادبی اور بدتمیزی کرتے ہوئے بے شرمی کا مظاہرہ کیا گیااور نہ ہی حکومت کو زیر تفتیش ملزم کو چھڑانے کے لئے ڈیڈ لائن دی گئی۔
جبکہ دو روز قبل اتوار کواسلام آباد کے مقام سنگجانی کے جلسہ عام میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں نے حکومت،اداروں اور سیاسی مخالفین کے خلاف جو جارحانہ تقریریں کیں ،پیر کو اس کا ردعمل بھی اتنی ہی سخت،جوابی کارروائی کی صورت میں سامنے آیااور وفاقی دارالحکومت میں پرامن جلسے جلوسوں سے متعلق نئے قوانین کی خلاف ورزی پر پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر علی گوہر سمیت بعض اہم لیڈروں کو پارلیمنٹ کے دروازے پر گرفتارکرلیاگیا۔ان میں قومی اسمبلی کے منتخب ارکان بھی شامل تھے۔ان کی گرفتاری کیلئے پولیس پہلے ہی پارلیمنٹ کے باہرتعینات کردی گئی تھی۔اس صورتحال سے بچنے کیلئے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔جلسے میں سب سے زیادہ اشتعال انگیر تقریر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی تھی جنھوں نے خواتین اور صحافیوں کو لتاڑنے کے علاوہ حکومت کو بھی للکارا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کو پندرہ روز کے اندر رہا کردے ورنہ وہ خود اڈیالہ جیل پہنچ کر انھیں رہا کردیں گے۔وزیراعلیٰ کے نازیبا ریمارکس پر صحافیوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔اگرچہ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے وزیراعلیٰ کے ریمارکس پر صحافیوں سے غیرمشروط معافی مانگ لی مگر صحافی برادری اور ان کی ملک گیر تنظیمیں خود وزیراعلیٰ سے معافی منگوانے کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔اسی طرح خواتین نے بھی وزیراعلیٰ کے ریمارکس پر شدید احتجاج کیا۔قانون کی خلاف ورزی،پولیس پر پتھرائواور دوسرے الزامات میں پی ٹی آئی کے 28رہنمائوں کے خلاف مقدمات تیار کرلیے گئے ہیں،پنجاب کی لیڈرشپ کے خلاف کریک ڈا?ن ابھی باقی ہے۔علی امین گنڈاپور کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔منگل کو پی ٹی آئی لیڈروں کی گرفتاریوں کے معاملے پر قومی اسمبلی میں بحث ہوئی جس میں حکومتی اتحادیوں نے بھی گرفتاریوں کی مذمت کی تاہم پی ٹی آئی کے جارحانہ رویے اور قانون کی خلاف ورزی کو بھی غلط قراردیا۔وفاقی وزرا نے گرفتاریوں کا دفاع کیااور کہا کہ جو کچھ ہواوہ پی ٹی آئی کے جارحانہ رویے کے باعث قانون کے عین مطابق ہے۔اسپیکرسردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی میں بحث کے بعد ارکان کی گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کردیے۔انہی سیاسی رویوں کے باعث ہمارے سیاستدان سیاسی بونے اور امریکی سیاستدان عالمی لیڈر کا مقام حاصل کرتے ہیں جلسے جلوسوں کیلئے امن عامہ کے حوالے سے جوقوانین نافذ کیے گئے ہیں وہ پاکستان ہی سے مخصوص نہیں۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا موجودہ ماحول اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں مل بیٹھیں اور اتفاق رائے سے متنازعہ مسائل کا حل نکالیں۔ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھیں اور اس کا احترام کریں۔مخالفت برائے مخالفت کی بجائے افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کریں۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر ان کے اچھے کام ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...