یہاں ’’مرنا منع ہے‘‘

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
خدا کرے دیارِ غیر میں کسی کی موت نہ ہو کیونکہ ___وہاں جینا آسان اور مرنا مشکل ہے۔ امریکہ سمیت تمام یورپی ممالک میں لوگ اب دوسرے ملکوں میں مرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ اِن ملکوں میں قبرستانوں کی کمی اور قبروں کا مہنگا ہونا ہے۔ صاحبِ ثروت بھی اب یہاں اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے قبروں کا مہنگا نہیں ’’افورڈ‘‘ کر پاتے۔
اوورسیزپاکستانیوں کی بات کریں جو کئی دہائیوں سے یورپی ملکوں میں اقامت پذیر ہیں۔ تو اُن کا حال بھی کچھ الگ نہیں۔ غیر ملکی ’’سٹیزن شپ‘‘ کے باوجود مرنے کی صورت میں مہنگی قبروں کو افورڈ کرنا اُن کے بس میں نہیں۔ کوئی پاکستانی کسی یورپی ملک میں مر جائے تو لواحقین اُس کی میت پاکستان لانا ہی پسند کرتے ہیں کیونکہ یورپ میں قبریں افورڈ ایبل نہیں۔
ہر طرح کے وسائل سے مالا مال دنیا کے ان امیر ترین ملکوں میں یہ صورت حال دہائیوں سے ہے اور دن بہ دن خراب اور تشویش ناک حد تک ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک غیر ملکی صحافی کا مضمون پڑھا تو یہ صورت حال اور بھی واضح ہوئی ۔ مضمون میں ایسی معلومات ملیں جو بہت ہی حیران کن تھیں۔
بیرون ملک اقامت پذیر پاکستانیوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے ’’یہاں مرنا منع ہے‘‘ کیونکہ مرنے کی صورت میں یہاں تدفین کے اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ نسبتاً پاکستان میں مرنا زیادہ سہل لگتا ہے۔ کیونکہ یہاں تدفین کے اخراجات یورپ کے برعکس ’’مفت‘‘ کے برابر ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا، جاپان، فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے بعض شہروں میں مرنا بالکل منع ہے۔ جی ہاں، دنیا میں ایسے بہت سے شہر اور علاقے ہیں جہاں آپ کو مرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ آپ کو مرنے کے لیے کہیں اور جاناپڑتا ہے۔ جبکہ بعض ملکوں، شہروں اور علاقوں میں مرنے سے پہلے قبر کے لیے باقاعدہ پلاٹ خریدنا پڑتا ہے۔ ایسے میں پاکستان ان ممالک کی نسبت’’جنت‘‘ محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں تدفین کے اخرجات’’افورڈ ایبل‘‘ ہیں۔متوسط طبقے کا کوئی بھی فرد آسانی سے یہ اخرجات برداشت کر لیتا ہے۔
پاکستان میں آپ کہیں بھی رہتے ہوں۔ کسی بھی شہر، ٹائون او ر محلے سے تعلق ہو، جس گلی، کوچے میں چاہیں وفات پا سکتے ہیں۔ کہیں بھی آسانی سے دفن ہو سکتے ہیں۔ دفن ہونے کے لیے کسی اجازت یا زیادہ اخراجات کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اٹلی کے شہر Falcianodel Massiocoمیں اب کسی نئی قبر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ کیونکہ اس شہر میں قبرستان پوری طرح بھر چکے ہیں اور ان میں نئی قبروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ شہریوں کو تدفین کے لیے کسی دوسرے شہر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ناروے میں Longyirbyenجیسے کئی ٹائونز میں اب مرنے کے لیے مشکل پڑ رہی ہے۔ یہاں مرنا منع ہے۔ ان شہروں کی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ شہر میں مردے دفن کرنے سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ناروے ہی کا ایک شہر selہے جس میں جگہ نہ ہونے کے باعث انتظامیہ نے عوام کے مرنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ہے نا عجیب بات۔موت آ جائے تو بھلا موت کو آنے سے روکا جا سکتا ہے کیا؟ مقامی انتظامیہ کا ایسا حکم واقعی بہت مضحکہ خیز ہے۔ برازیل کی بات کریں تو اُس کے شہر Sao Pauloاور Biritiba Mirimکے قبرستانوں میں اب کسی نئی قبر کی کوئی جگہ نہیں رہی۔ شہری انتظامیہ نے سختی سے منع کر رکھا ہے کہ کوئی ان شہروں میں نہ مرے۔ مرنا ہی ہے تو اُس کے لیے ایسے کسی شہر کا انتخاب کرے جہاں تدفین کے لیے جگہ دستیاب ہو۔ ویٹی گن بھی ایک ایسا ہی شہر ہے جہاں مردے کی تدفین بڑی سختی سے منع ہے۔ صرف پوپ یا اہم عہدوں پر فائز پادری ہی ویٹی گن میں دفن کئے جا سکتے ہیں۔ اٹلی کے شہر Selliaمیں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔ وہاں کسی مہلک بیماری سے مرنے پر پابندی عائد ہے۔ یہ اقدام اس لیے روبہ عمل ہے کہ شہر میں رہنے و الے باقاعدگی سے اپنا میڈیکل چیک اپ کراتے رہیں۔ سپین کے شہر Anjaronمیں بھی مرنے پر پابندی عائد ہے۔ یہ پابندی شہر میں نئے قبرستان کے بننے تک برقرار رہنے کا امکان ہے۔
امریکی ریاست ہوائی میں تدفین کے لیے پرائیویٹ پلاٹ خریدنا پڑتا ہے۔ پلاٹ نہ ہونے کی صورت میں مردے کو جلا دیا جاتا ہے اور راکھ سمندر میں بہا دی جاتی ہے۔ راکھ سمندر میں بہانے کے لئے محکمہ ماحولیات سے پرمٹ لینا ضروری ہوتا ہے۔ بصور ت دیگر مردے کی راکھ سمندر میں نہیں بہائی جا سکتی۔ آسٹریلیا کی جنوب مشرقی ریاست سائوتھ ویلز میں سرکاری سطح پر کوئی قبرستان موجود نہیں۔ اس لیے مردے کو پرائیوٹ جگہ پر دفنانا پڑتا ہے۔ تاہم اس کے لیے بھی انتظامیہ کی جانب سے بہت سی شرائط عائد ہیں جن کی پابندی ہر مرنے والے کے لواحقین پر لازم ہے۔ فرانس کے شہر LE, Lavandouمیں قبرستان کی جگہ بھر جانے سے شہر کے اندر مرنے پر پابندی عائد ہے۔ کوئی مر جائے تو مردے کے لواحقین کو مردہ دفنانے کے لیے کسی ایسے شہر جانا پڑتا ہے جہاں قبر آسانی سے مل جائے۔ فرانس ہی ایک شہر Sarpourenxکے قبرستانوں میں قبر کی جگہ دستیاب نہ ہونے سے شہریوں کی پریشانی اور مسائل بڑھ گئے ہیں۔ انہیں اب اپنے کسی پیارے کو دفنانے کے لیے پرائیویٹ جگہ پر پلاٹ خریدنا پڑتا ہے۔ جو مہنگا ترین ہوتا ہے۔
یہ بھی حیران کن بات ہے کہ فرانس کے بہت سے علاقوں جبکہ یونان اور ہانگ کانگ میں بھی قبر کے لیے پلاٹ کرائے پر مل جاتے ہیں۔ چھ سال، تین سال اور اس سے بھی کم عرصے میں یہ پلاٹ ایک کے بعد کسی دوسرے مردے کو الاٹ کر دئیے جاتے ہیں ۔ جرمنی میں قبر کا پلاٹ15سے 30سال کی لیز پر مل جاتا ہے۔
امریکی ریاست البامہ کے شہر ’’موبائل‘‘ میں رات کے وقت میت دفنانے پر پابندی عائد ہے۔ روس کے دارالحکومت ماسکو میں قبرستانوں کے لیے  سخت قوانین نافذ ہیں۔ ایسے بھی حالات ہوتے ہیں جب لوگوں کو قبروں کے لیے اراضی لیز پر لینا پڑتی ہے۔ جس کی پانچ اور دس سال بعد تجدید کرانا ہوتی ہے۔ لیز اور تجدید کے لیے بھاری بھرکم فیسیں بھی ادا کی جاتی ہیں۔ جنوبی افریقہ میں خاندانوں کو قبروں کے لیے گنتی کی مخصوص جگہ دی جاتی ہے۔ جاپان میں تدفین کے لیے پلاٹ خریدنا لازم ہے۔ تاہم یہاں بیشتر لوگ اپنی آسانی کے لیے مردہ جلانے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اسی طرح چین کے کئی صوبوں میں مردہ دفنانے کی بجائے اُسے جلانے کارواج ہے۔ تاکہ قبروں کی جگہ بچائی جا سکے۔ سویڈن میں مردوں کو فریز کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں اس فریز مردے پر لکوئیڈ نائٹروجن استعمال کر کے اسے پائوڈر میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پھر یہ پائوڈر بطور کھاد فصلوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسرائیل میں جگہ کی کمی کے باعث کئی کئی منزلہ قبریں بنائی جاتی ہیں۔ ہر منزل پر الگ میت دفن ہوتی ہے۔ تبت میں مردوں کو کھلی ہوا میں رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں چیل کوے اور دیگر جانور کھا جائیں۔ کے پی کے میں واقع کافرستان ’’وادی کیلاش‘‘ کے لوگ بھی چند دہائی پہلے تک مردوں کے ساتھ یہی سلوک کرتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ 
اگرچہ پاکستان زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ آبادی کے تناظر میں اس کے مسائل بھی بڑے ہیں۔ پیسے کی فراوانی نہیں۔ اس کے باوجود شکر ہے کہ یہاں مرنے والوں کو باآسانی قبرستان میں قبریں مل جاتی ہیں۔ کفن دفن کے لیے لواحقین کو اتنے اخراجات برداشت نہیںکرنے پڑتے جن کا سامنا دیارِ غیر میں رہنے والوں کو کرنا پڑتا ہے۔ 
لہٰذا پاکستان ایک بہت بہتر ملک ہے۔ کم از کم یہاں قبر تو آسانی سے مل جاتی ہے۔ پرانی بات ہے اُس وقت دنیا گلوبل ویلج نہیں تھی۔ مرزا غالب کو بہت سی بیماریوں نے آ لیا۔ ان کے قوی بری طرح مضمحل ہونے لگے۔ غالب کے بقول بستر سے وہ اتنی دیر میں اٹھتے تھے جتنی دیر میں ایک قدآدم دیوار اٹھتی ہے۔ نیز مالی حالات بھی اتنے خستہ تھے کہ شراب بھی قرض کی پیتے۔ ایسے میں دیارِ غیر میں مرنے کی خواہش کیونکر پوری ہو سکتی تھی؟ جب باہر جانے کی تمنا پوری ہوتی دکھائی نہ دی تو وطن میںباعزت طور پر مرنے کی آرزو کچھ اس طرح کی :
ہوئے مر کے ہم جو  رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
 مرزا غالب کی آرزو تھی کہ دیارِ غیر میں مریں لیکن ناآسودہ حالات کے باعث وطن میں ہی مرنا پسند کیا۔ باہر مرتے تو شاید مزار ہوتا، نا چاہنے والوں کی غالب کے مزار پر آمد اور فاتحہ خوانی۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...