چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور توسیعی پالیسی 

نیا عدالتی سال سپریم کورٹ کے فل ریفرنس بنچ ون میں نو ستمبر منعقد ہوا،اس میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان
، پاکستان بار کونسل وائس چیرمین فاروق ایچ نائک اور صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کے نمائندوں کو ہی تقریریں کرنے کی اجازت تھی! تقریب کے دولہا ہمیشہ چیف جسٹس ہی ہوا کرتے ہیں۔سوائے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سب نے انگلش میں گزارشات پیش کیں، اس کلیدی خطاب میں سب اچھا ہے بتایا گیا جب کہ ایسا نہیں ہے۔مجھے بتایا گیا کہ چیف جسٹس نہ کسی سے ہاتھ اور نہ ہی کسی سے ملتے ہیں۔اس کا تجربہ کیا تو سچ ثابت ہوا۔ اس سلسلے میں اپنی مثال یہ آپ ہیں۔ مسائل بڑھنے کی ایک وجہ ان کا رویہ بھی بتایا جاتا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں کہا جاتا ہے کیسوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ  میں ججز گروپ بندی کا شکار ہیں۔اکثر ججز ایک دوسرے سے روٹھے رہتے ہیں،ریفریشمنٹ کے موقع پر ایک چھت کے نیچے ججز وکلا اور میڈیا تھا۔چیف جسٹس نے میڈیا کے ساتھ اپنا وقت گزارنا مناسب سمجھا مگر انہیں مہنگا پڑ گیا۔ انکو آف دی ریکارڈ گپ شپ کرنے پر وضاحت دینی پڑھ گئی۔ جب ایک صحافی نے اف دی ریکارڈ خبر لگا دی۔یہاں بتاتا چلو کہ چیف جسٹس نام کے ساتھ صاحب لکھنے کو برا سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم بھی ان کے نام کے ساتھ لفظ صاحب نہیں لکھ رہے۔ اس موقعہ پر بتایا جاتا ہے کہ یہ سال کیسے گزرا اور آنے والا سال کیسے رہے گا۔ اس وقت ہمارے عدالتی نظام کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ برے حالات ہیں۔ مگر بابا کرمو کہتا ہے بہت ہی برے حالات ہیں۔انکا کہنا ہے کہ کیس نہ سننے سے بے گناہ لوگ جیلوں میں ہیں۔عام کیس لگتے نہیں۔ عدالتوں میں سیاسی مقدمات کی بھر مار ہے۔لوگ تنگ ہیں جس کا احساس عوام کو تو ہے مگر کہا جاتا ہے ججز حضرات کو بلکل نہیں۔ اگر ہوتا تو چھٹیاں منسوخ کرتے اور دن رات ایک کر کے کیسوں کی تعداد کم کرتے۔لگتا ہے حکومت کو اس کا کچھ احساسِ ہے وہ کبھی سپریم کورٹ کے ایڈہاک ججز لگاتے ہیں کبھی ان ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سوچتے ہیں اور اب یہ سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ یہی ججز مزید کچھ عرصہ کام کرتے رہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ عدالتی حالات برے ہونے کے باوجود ججز نے چھٹیاں کیوں کیں۔ کچھ تو چھٹیوں کے بعد بھی ملک سے باہر رہے۔ سوائے ججز کے اس پر ہر کوئی پریشان ہے۔ اس روز ریفرشمنٹ کے موقع پر قاضی فائز عیسی مسلسل صحافیوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف  رہے۔ جس کا گل دوسرے روز یہ کھلا کہ جب کسی نے اپنی مرضی کی خبر ان سے منسوب کر کے لگا دی پھر دوسرے روز سپریم کورٹ کی جانب سے وضاحت دینا پڑی کہ چیف جسٹس کی بات چیت آف دی ریکارڈ تھی۔ چیف جسٹس کہتے ہیں میں کسی سے نہیں ملتا۔ میڈیا سے اس لیے ملتا ہوں کہ یہ سکہ بند صحافی ہیں۔اس روز ججز وکلا کے بجائے میڈیا کے ساتھ سارا وقت گزار دیا اور اپنے ساتھی ججز اور وکلا کو لفٹ نہ دی۔ معلوم نہیں اس روز'' لفٹ ''خراب تھی یا ان کی لفٹ میں ان بلٹ خرابی ہے۔اس روز اگر میڈیا سے دور رہتے تو سیکرٹری کو وضاحتی بیان جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی؟اب خود ہی بتا بھی رہے ہیں کہ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل مجھ سے ملنے آ? تھے اور ملا بھی۔ میڈیا کے ساتھ ملاقاتیں بھی کرتے ہم دیکھ چکے ہیں سیاسی لیڈران کو چیمبر میں بلاتے بھی سن چکیہیں۔جناب سب کچھ کرتے ہیں مگر پریس کانفرنس نہیں کرتے۔ آج بھی میڈیا کے ساتھ گپ شپ کرتے رہے۔ شائد اس لئے کہ یہ رجسٹرڈ صحافی تھے۔جناب کو کم از کم اپنے دروازے  وکلا کیلئے کھلے رکھنے چاہیے کیونکہ وکلا ہی جوڈیشری کے کان اور انکھیں ہیں۔جناب کا ایسا کرنا فخر کی بات نہیں۔افسوس کی بات ضرور ہے۔اس موقع پر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب بہت یاد آئے۔ عزت دینی تو کوئی ان سے سیکھے،راقم کی ایک کالم کے حوالے سے چیف صاحب  سے چیمبر میں  ملاقات ہوئی۔وہ کہا کرتے تھے کہ۔ لکھنے سے پہلے اگر کوئی سوال ہوتو پوچھ لیا کرو۔جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کہتے ہیں میں کسی سے نہیں ملتا۔ انہیں اپنے رویہ پر غور کرنا چائے۔ یاد رکھیں جب  قاضی فائز عیسیٰ  کے خلاف ریفرنس دائر تھا تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ جنگ انہوں نے اکیلے میں نہیں لڑی اور جیتی اس جنگ میں اس جیت میں میرے جیسے وکلا اور دوسرے کالم نویس بھی  شامل تھے۔ لگتا ہے شائد اس کا انہیں احساس نہیں۔ جناب والا یہ فتح اکیلے کی کوششوں  سے دیکھنے کو نصیب نہیں ہوء۔ ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں اس کا صلہ لینے کی نہ کسی نے خواہش اور نہ ہی کوشش کی۔سب جانتے ہیں کہ آپ کا چیف جسٹس اف پاکستان بننا  یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔پہلے والے چیف جسٹس کیس سنتے وقت وکلا کو غصہ یا جرمانے نہیں کیا کرتے تھے۔ مگر اب یہ وکیلوں کو سننے کے بجائے مولانا حضرات کو روسٹرم پر چیمبر میں بلاتے ہیں۔ ایسا کرنے کے باوجود کہتے ہیں میں کسی سے نہیں ملتا۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ ملتا ہوں مگر چیدہ چیدہ شخصیات سے جو میرا بگاڑ سکیں۔ان کا عہدہ ایسا کرنے کی انہیں اجازت نہیں دیتا۔ جب فل کورٹ ریفرنس ہو رہا تھا اس کورٹ کا سائونڈ سسٹم پہلے کی طرح اس روز بھی خراب تھا،  کاش یہ اپنے دروازے کھلے رکھتے تو انہیں کوئی بتاتا کہ بنچ ون کا سائونڈ سسٹم خراب ہے اسے ٹھیک کروائیں۔ جناب اگر اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈانگ پھیر لیتے تو اسلام آباد والوں کے بند راستے کھل گ? ہوتے۔اس وقت اسلام آباد کنٹیروں کی وجہ سے کراچی پورٹ کا منظر پیش کررہا ہے۔ ہر طرف کنٹینر ہی کنٹینر لگا کر اکثر راستے بند کر رکھے ہیں۔بابا کرمو کا کہنا ہے بنچ ون میں چیف صاحب کی کرسی کے اوپر بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا خوبصورت پوٹریٹ ہے۔ اس کی طرف دیکھیں تو وہ افسردہ  دکھائی دیتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے کہہ رہے  ہوں کہ مجھے قرآنی آیات کے اوپر کیوں لٹکا رکھا ہے۔کوئی ہے جو میری مدد کرے۔ اپ کا کہنا ہے  پلیز اس کی ترتیب ٹھیک کر دیں۔ یہ بھی کہنا ہے کہ یا تو قائد کی قراقلی ٹوپی والی تصویر کو بدل دیں۔ اگر یہی تصویر لگائے رکھنی ہے تو یہ ٹوپی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے سر پر بھی کیس سنتے وقت ہونی چاہیے۔کیونکہ یہ ٹوپی اس وقت قائد کے سر پر ہے یا ججز صاحبان کی کرسیوں کے پیچھے کھڑے ملازمین  کے سروں پہ ہے۔ ایسے میں یا تو ان کے سروں سے یہ ٹوپی اتار دی جائے اور انہیں کسی کپڑے کی ٹوپی پہنا دی جائے اور خود چیف جسٹس قائد کی ٹوپی پہن لیں۔ یہ بھی کہنا ہے کہ کیس سنتے وقت ججز غصہ نہ کیا کریں۔آپ وکلا کی تربیت کرنے نہیں جج بن کر کیس سننے بیٹھتے ہیں لہذا وکلا کو سننا اور بولنے دیا کریں اور خود کم  بولا کریں۔آپ کے پاس قلم کی طاقت ہے اس کا استعمال کیا کریں۔آخر میں یہ بتانا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے لہذا کیس کے دوران اردو میں بولا کریں اور  فیصلے اردو میں لکھا کریں۔یہی آئین اور قانون کہتا ہے۔ چیف جسٹس اگر ریفرنس میں اپنے جانے اور رہنے کے بارے میں بتا دیتے تو ابہام نہ رہتا۔اب چیف جسٹس نے  وضاحتی بیان میں جانے یا رہنے کا ابہام ختم کر دیا ہے۔یعنی تمام ججز کی عمروں میں اگر اضافہ ہو جاتا ہے تو پھر یہ سروس میں رہے گے۔ اس کالم میں جو باتیں گوش گزار کی ہیں ان  پر چیف جسٹس عمل کر کے مشکور فرمائیں۔ بابا کرمو کا کہنا ہے کہ مجھے لگتا ہے چیف جسٹس کا عہدہ انتطامی بھی ہے۔ لہذا تمام چیف جسٹس صاحبان کو اس عہدے سے قبل انہیں انتظامی امور پر مبنی مقامی یا فارن کے کورس کرائے جائیں تاکہ عدالتی معملات  احسن طریقے سے ادا کر سکیں یا اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ کیس لگانے اور بنچ بنانے والے کے لیے الگ سپریم کورٹ میں نیا شعبہ قائم کر دیا جائے جس کے بعد چیف جسٹس اور جسٹس کا کام صرف کیس سننا اور لکھنا رہ جائے۔ دعا ہے یہ عدالتی سال اچھا گزرے۔ججز صاحبان سیاست دانوں کے ساتھ عام آدمی  کے کیس بھی لگایا کریں سنا کریں انہیں بھی انصاف کی ضرورت ہے!!

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...