میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت شامل، بانی پی ٹی آئی کے بھی دستخط ہیں: اسحاق ڈار

اسلام آباد  (خبرنگار)  ایوان بالا میں نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہاکہ حکومت چھپ کر کوئی بھی قانون سازی نہیں کرے اور جو بھی قانون لایا جائے گا اس پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائے گا۔اپوزیشن لیڈر کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کیا۔  وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ آج قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ساتھ تین میٹنگز ہوئے ہیں وہاں پر بہت زیادہ باتوں پر بحث ہوئی ہیں اور اپوزیشن لیڈر اپنے قومی اسمبلی کے ساتھیوں سے ضرور پتہ کریں کہ خصوصی کمیٹی میں کیا ہوا ہے، تجویز پیش کرونگا کہ اس کمیٹی میں ایوان بالا سے بھی نمائندگی ڈالی جائے۔ حیرانگی ہے کہ قانون سازی کرنا ہمارا کام ہے، کیا پی ٹی آئی کے دور میں آدھے گھنٹے میں 22 بلز منظور نہیں کئے گئے تھے؟  حکومت ایک حکمت عملی کے تحت کام کرتی ہے ۔ 2006میں ایک میثاق جمہوریت بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے مابین سائن ہوا جس کے تحت ملک میں ایک آئینی عدالت ہونی چاہیے۔ اس مسئلے پر پی ٹی آئی کے بانی کو بلایا تھا اور انہوں نے دستخط بھی کئے تھے۔اگر میثاق جمہوریت میں کوئی اچھی چیز ہے تو اس میں مذید تاخیر نہیں ہونی چاہیے ۔ اگر ہمارے پاس نمبر ہونگے تو ہم اس کو سامنے لائیں گے۔ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے کے حوالے سے جو قانون ہے اس پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بل جب لایا جائے گا تو سب دیکھ لیں گے۔ موجودہ حکومت نے نیب کے زریعے کسی بھی اپوزیشن کے رکن پر کوئی مقدمہ کیا ہو تو سامنے لایا جائے۔ ہمیں اپنے ماضی کو دفن کرنا ہوگا۔  جس پر اپوزیشن لیڈر سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ آئین میں63Aکے تحت کوئی بھی رکن پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے حوالے سے اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا ہے۔ جس پر وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ یہ ترمیم ہم نے آئین میں ڈالی تھی جو بھی پارٹی لائن کو کراس کرے گا تو یہ شق لاگو ہوگی۔ اس موقع پر وزیر قانون و پارلیمانی امور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ اس قانون کے حوالے سے نظرثانی کی پٹیشن بھی دائر کی گئی ہے اگر کوئی پارٹی کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالنے وا لے کی ڈس کوالی فیکیشن  درست نہیں ہے۔ اپوزیشن لیڈرسینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ حکومت دھونس، دھاندلی اور عجلت سے آئینی ترامیم کرانے کے درپے ہے۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے اگر انہوں نے بھی آئین کے برخلاف اقدامات میں حکومت کا ساتھ دیا تو قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ایوان بالا میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے کہاکہ اس ایوان میں بل بغیر پڑھے منظور ہونے کیلئے بھیج دیے جاتے ہیں انہوں نے کہاکہ اگر ماضی میں کوئی غلط کام ہوا ہے تو اس کو مثال نہ بنائیں، انہوںنے کہاکہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کس طرح اپوزیشن اراکین کی وفاداریاں تبدیل کئے جائیں۔ انہوںنے کہاکہ ایک ہی روز میں رحیم یار خان کے ضمنی انتخابات ہونے کے بعد ریکارڈ ٹائم میں نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔ جو بل لایا جارہا ہے وہ حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھی شیئر نہیں کیا ہے۔ حکومت سے نمبر پورے نہیں ہورہے ہیں اس کیلئے دوسری تدابیر استعمال کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی جو جمہوریت کی چیمپین بنتی ہے آج بدقسمتی سے اپنے جمہوری اقدار کو پس پشت رکھتے ہوئے نظریہ ضرورت کو اہمیت دیتی ہے۔ خیبر پختونخو کے وزیر اعلی پر تنقید درست نہیں ہے۔ وزیر اعلی نے  مخصوص جرنلسٹ کی بات کی ہے، دل آزاری ہوئی ہے تو ہم ان سے معذرت خواہ ہیں۔ چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا اکثریت ہے کہ بل لا رہے ہیں جس پر میں نے کہاکہ اگر اکثریت نہیں ہوگی تو بل نہیں آئے گا۔  سوا ل کیا گیا کہ کیا موجودہ چیف جسٹس کیلئے کیا جارہا ہے پھر میں نے کہاکہ بلاول بھٹو کا بیان ہے کہ یہ کسی کی ذات کیلئے نہیں بلکہ ملک و قوم کے فائدے میں ہوگا۔ مجھے ابھی بھی بل کا پتہ نہیں ہے یہ بل جب قومی اسمبلی میں پیش ہوگا تو سب کو پتہ چل جائیگا۔ آئین میں کہیں نہ کہیں تو غلطیاں ہیں مگر اس کو سب نے مل کر ٹھیک کرنا ہے۔   سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ آرٹیکل 63 بہت واضح ہے، اگراس کا ووٹ ہی نہیں گنا جائے تو پھر اس کو سزا کس چیز کی دی جائے گی ۔ سینیٹر کامران مرتضی نے کہاکہ اس قانون کا نتیجہ اس حکومت کے جانے کی صورت میں نکلا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ایمل ولی خان نے کہاہے کہ حکومت آئینی ترامیم کے حوالے سے بلز جلد ایوان میں پیش کرکے عوام کے اصل مسائل کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرے۔ ہم موجودہ اپوزیشن کا حصہ نہیں ہیں کیونکہ یہ اپوزیشن نہیں بلکہ ایک پارٹی بن چکی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت مجبور ہوکر سپریم کورٹ کو قابو میں لانا چاہتی ہے کیونکہ ایک عرصہ دراز سے سپریم کورٹ ایک پارٹی کو آئین کے برخلاف سپورٹ کر تی ہے۔ہماری معاشی پالیسیاں بھی عوام کیلئے ہونی چاہیے ہم اس کیلئے آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے انہوںنے کہاکہ پاکستان میں انٹیلی جنس اداروں کیلئے بھی ایک ایسی قانون سازی کرے اور ازادی اظہار رائے اور احتساب کا ایسا قانون لانا چاہیے جو عوام کے مفاد میں ہو۔ملک میں مہنگائی کا طوفان ہے بلز بہت زیادہ آرہے ہیں ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے ایک نئے منی بجٹ کے متعلق سن رہے ہیں۔ یہ حکومت عوام کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ ہم نہ تو حکومت کا حصہ ہیں اور نہ ہی اس اپوزیشن کا حصہ بننا چاہتے ہیںکورم کی نشادہی پر اجلاس آج سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا گیا۔ 

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...