اقوام متحدہ کےخصوصی کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو مونیزنے محترمہ بے نظیربھٹوکے قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق نیویارک میں میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کی سابق وزیراعظم کو جس نوعیت کے خطرات لاحق تھے انہیں اس مناسبت سے سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، اس وقت کی وفاقی اور پنجاب حکومت نے ان کی سکیورٹی کے غیر مناسب انتظامات کئے تھے۔ کمشن کا کہنا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے بھی تحقیقات میں مکمل تعاون نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود بینظیر بھٹوکیلئے فول پروف انتظامات نہ کیے جاسکے اوربے نظیربھٹو کے سکیورٹی انچارج میجرامتیاز بھی مناسب انتظامات نہ کرسکے جبکہ بے نظیربھٹو کو القاعدہ اوردیگرعسکری تنظیموں کی طرف سے خطرات تھے اس کے باوجود مقامی پولیس نے بھی موثر اقدمات نہیں کیے۔ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ کوفوری دھو کر بھی شکوک شبہات پیدا کیے گئے اورمحترمہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم نہ کروایا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سانحے کے بعد مناسب تحقیقات نہیں کی گئیں اور جائے حادثہ سے صرف تیئس شواہد اکھٹے کیے گئے حالانکہ وہاں سے ہزاروں شواہد مل سکتے تھے۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنا اعلیٰ سطح کے احکامات کے بغیر ممکن نہیں تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مناسب انتظامات کرکے بےنظیر کا قتل روکا جاسکتا تھا۔ ایک سوال پر ہیرالڈو مونیز نے کہا کہ بےنظیر قتل میں آصف علی زرداری اوران کے خاندان کے کسی فرد کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے تحقیقاتی کمشن کے سربراہ ہیرالڈو مونیز سے رپورٹ وصول کرکےاس کی کاپی اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر حسین ہارون کو پیش کردی ہے ۔ یہ رپورٹ ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے ۔یہ رپورٹ تیس مارچ کوپیش کی جانی تھی لیکن صدرآصف زرداری کی درخواست پراسے پندرہ دن کے لیے مؤخرکردیا گیا تھا۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اس سے قبل اقوامِ متحدہ کے صدر دفتر میں صحافی اس وقت حیران رہ گئے جب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے حسین ہارون نے رپورٹ سے متعلق کچھ بھی کہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ رپورٹ پاکستان حکومت کو بھیج رہے ہیں اور حکومت ہی اس پر ردِ عمل دے گی۔