نگران حکومتوں کو تو بہت زیادہ چوکس ہونا چاہئے مگر حالات بد سے بدترین کی طرف رواں دواں ہیں۔ حکومتیں حاکموں سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر حاکم وقت سخت مزاج ہو اور قانون کا پاسدار ہو تو اوپر سے نیچے تک سبھی کارندے ”محتاط“ رہتے ہیں۔ مصر میں حسنی مبارک کے دور تک مکمل امان و امان کا دور تھا۔ وجہ یہ تھی کہ قانون اور ایجنسیوں کا نظام ایسا تھا کہ چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ مگر حسنی مبارک کے بعد وہاں بھی جرائم کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چوری، ڈکیتی، رہزنی، اغوا اور قتل کی خبریں بھی عام ملتی ہیں۔ کہنے کو حسنی مبارک ڈکٹیٹر تھا مگر عوام امن اور چین سے زندگی گزار رہے تھے۔ پہلے غربت بھی تھی مگر قدرے سکون تھا۔ اب عوام انقلاب اور جمہوریت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہنگامے تھمنے پر نہیں آتے۔ مسلمانوں کو شاید جمہوریت راس نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری حکومت نے جیسے اپنے پانچ برس مکمل کئے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہے اور پیپلز پارٹی والے اس پر خوش ہیں کہ ہم نے اپنی مدت مکمل کر لی۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے۔ عوام کا کون سا مسئلہ حل ہوا ہے؟ لوڈشیڈنگ (گیس بجلی) غربت، مہنگائی میں کیا کمی ہوئی؟ امن عامہ کی صورتحال کیا ہے؟ اب تو مک مکا کی نگران حکومتیں (جو بظاہر متفقہ طور پر بنائی گئی ہیں) بے دست و پا دکھائی دیتی ہیں۔ عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ بیوروکریسی کی اکھاڑ پچھاڑ کے سوا ابھی کچھ نظر نہیں آتا اور سننے میں یہ بھی آ رہا ہے کہ رشوت کا بازار گرم ہے۔ اب بھی من پسند پوسٹنگ ہو رہی ہیں اور اس میں پیسے کی چمک اپنا کام دکھا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نہ ہونے کے باوجود اور اتنی اکھاڑ پچھاڑ کے باوجود بھی پی پی کا اثر رسوخ کم نہیں ہوا اور ایسا کیوں نہ ہو وزیراعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی صدر زرداری کی چائس ہیں اور مسلم لیگ ن کا سارا دھیان الیکشن کی طرف ہے ۔اسے علم ہے جو بھی ہو آنے والے دنوں میں باری ہمیں ملنی ہے سب ٹھیک کر لیں گے۔ حیرت تو یہ ہے کہ مفاد پرست دھڑا دھڑ نہایت سرعت کے ساتھ مسلم لیگ ن میں داخل ہو رہے ہیں اور چاہے کسی کا ماضی کچھ رہا ہو مسلم لیگ ن سبھی کے لئے بارڈر وا کئے ہوئے ہے۔ مسلم لیگ ہمخیال اور کچھ اور جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے وعدے کے باوجود مسلم لیگ ن انہیں گھاس نہیں ڈال رہی۔ کشمالہ طارق کا بیان شائع ہوا ہے کہ نون والوں نے 30 سیٹوں کا جھانسہ دے کر ہمیں میٹرو بس کا ٹکٹ تھما دیا ہے۔ کچھ دینی جماعتیں بھی شکایت کناں ہیں۔ مسلم لیگ نون محبت اور جنگ میں سب جائز سمجھتے ہوئے ہر حال میں الیکشن جیتنے کے گر تلاش کر رہی ہے۔ پشاور سے حلقہ این اے ون سے غلام احمد بلور کی حمایت کی جا رہی ہے اور وہاں سے مسلم لیگ ن اپنا امیدوار کھڑا نہیں کر رہی کہ وہاں سے عمران خان نہ جیت جائے۔ شنید ہے کہ غلام احمد بلور کے مدمقابل تحریک انصاف کے عمران خان ہیں۔ ہمارا کسی سیاسی پارٹی سے قطعی کوئی تعلق نہیں لیکن ایک عام آدمی کی حیثیت سے ہم بھی یہ ضرور چاہتے ہیں کہ ایک موقع عمران خان کو ضرور ملنا چاہئے۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ ن یہ کئی بار حکومتوں میں رہ چکے ہیں اور ان کی کارکردگی کسی نہ کسی حوالے سے عوام کے سامنے آ چکی ہے۔ اب بلند بانگ دعوے کرنے والی تحریک انصاف کو موقع دیا جائے اگر وہ بھی وہی کچھ کرے جو پہلے سیاسی جماعتیں کر چکی ہیں تو انہیں بھی رد کیا جائے۔ اصل معاملہ لوگوں کی بنیادی ضروریات ہیں۔ بنیادی مسائل حل کرنے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔ یہ بڑے لوگ تو جنریٹر چلا کر اپنے اگرکنڈیشنڈ چلا لیتے ہیں۔ انہیں مہنگائی کا اندازہ ہو ہی نہیں سکتا۔ مت تو عوام کی ماری جا چکی ہے۔ لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ ایک بار منصفانہ اور شفاف انتخابات ہو جائیں اور اس میں درد دل رکھنے والے نمائندے سامنے آئیں تو شاید اس ملک اور قوم کے زخموں پر مرہم رکھا جائے۔ فی الوقت تو الیکشن کمشن نے کسی حد تک تمام پرانے چہروں کو کلیئر کر دیا ہے۔ جعلی ڈگری والے اور نادہندہ بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ بعض عدالتوں کے جج صاف کہہ رہے ہیں کہ ہم فلاں لیڈر کے مقدمہ کے حوالے سے کچھ نہیں کر سکتے۔ وغیرہ وغیرہ۔ حیرت ہے جعلی ڈگری کے امیدوار سزا کے بعد وکٹری کے نشان والی تصویر بنواتے ہیں اور ہمارے اخبارات انہیں شائع بھی کرتے ہیں۔ کالم نگار کھلم کھلا اور اپنی اپنی پسندیدہ پارٹیوں کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔ نجم سیٹھی صاحب میڈیا کے آدمی ہیں مگر تاحال پنجاب حکومت پر ان کی گرفت نظر نہیں آتی۔ عوام پانی اور بجلی کے لئے سڑکوں پر سینہ کوبی کر رہے ہیں۔ جائز کام کے لئے بھی رشوت سرعام طلب کی جاتی ہے جو ہم نے ٹیلی فون اور سوئی گیس کے لئے اپلائی کیا ہے تو معلوم ہوا کہ 60 ہزار روپے دیں گے تو گیس کا میٹر لگ جائے گا ورنہ تین سال انتظار کریں۔ ہم انتظار کی قطار میں لگ گئے ہیں۔ عام آدمی اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہے
تو یوں بھی انتقام مری بے کسی سے لے
میں آہ بھی کروں تو بغاوت شمار کر
اکھوں انھی.... ناں.... چراغ بی بی
Apr 16, 2013