ڈاکٹر حبیب الرحمان
آج بھی ان ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور مصائب و آلام سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اسی نعمت عظمیٰ کی طرف رجوع کیا جائے۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباءہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آکے ملائے
اس دین میں خود بھائی سے اب بھائی جدا ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہبان
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن کے لگا ہے
میڈیا کا کردار
پاکستان میں لادینیت، الحاد، غیر یقینی، قنوطیت اور بے حیائی کو فروغ دینے میں میڈیا نے بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ میڈیا جدید طرز جنگ میں ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور ہماری بدقسمتی سے اس وقت یہ ہتھیار دشمنان اسلام و پاکستان بڑی قوت سے قوم کو کنفیوز کرنے، انکی باہمی ہم آہنگی کو ختم کرنے، جھوٹ اور disinformation پھیلانے میں اور حق و باطل، ظلمت و نور، ایمان و کفر کا فرق مٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم بعض اہل دل جو خوف خدا رکھتے ہیں اگرچہ وہ قلیل ہیں مگر وہ بلا خوف و خطر حق بیان کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
پاکستانی میڈیا اور 50 لاکھ ڈالر:
دشمان اسلام اور پاکستان میڈیا کی قوت و اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں‘ اس لئے وہ پاکستانی میڈیا کو بھرپور طریقے سے ہماری نظریاتی تخریب کاری اور نظریہ پاکستان کو ختم کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کے مقبول وقیع اخبار روزنامہ نوائے وقت نے لکھا: ”امریکہ نے انتہا پسندی روکنے کیلئے پاکستان میں پہلا یونٹ تشکیل دے دیا:”واشنگٹن (آئی این پی) امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا یونٹ تشکیل دے دیا جو ملک میں پرتشدد رجحان رکھنے والے انتہا پسندوں کو روکنے کا کام کریگا۔ اتوار کو اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ یونٹ پاکستان میں موجود امریکی سفارتخانے میں قائم کیا گیا ہے اور دنیا میں کسی اور ملک میں اس نوعیت کا یہ پہلا یونٹ ہے۔ اخبار کے مطابق امریکہ نے اس یونٹ کیلئے پاکستان کا انتخاب اس لئے کیا ہے کیونکہ وہ اسے انتہا پسندوں کے وسیع نیٹ ورک کا گڑھ سمجھتا ہے۔ تین افراد پر مشتمل یہ یونٹ امریکی سفارتخانے کے عوامی رابطہ سیکشن کے تحت جولائی میں تشکیل دیا گیا تھا تاہم اب اس نے عملی طور پر اپنا کام شروع کیا ہے۔ یہ یونٹ مقامی شراکت داروں جن میں معتدل مزاج مذہبی رہنما بھی شامل ہیں، کے ساتھ مل کر انتہا پسندانہ پیغامات اور پروپیگنڈا کے توڑنے کا کام کرتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ٹی وی شوز، ڈاکومینٹریز، ریڈیو پروگرامز اور پوسٹرز کو استعمال کیا جاتا ہے۔
اسکے علاوہ مذہبی علماءاور عوام کے ساتھ امریکی حکام کے درمیان رابطے کا پروگرام بھی چلایا جا رہا ہے۔ اخبار کے مطابق سفارتخانے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی کیخلاف کافی جرآتمندانہ آوازیں موجود ہیں، ہمارا کام بس ان کو ڈھونڈ کر انکے پیغام کو پھیلانا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق ابتدائی طور پر اس یونٹ کیلئے 50 لاکھ ڈالر مختص کئے گئے ہیں انہوں نے فنڈنگ سے چلنے والے پروگراموں کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ امریکی مداخلت ثابت ہونے سے انکے شراکت داروں کا کام متاثر ہو سکتا ہے۔ اخبار کے بقول پاکستان میں کسی مذہبی رہنما کی جانب سے امریکی معاونت حاصل کرنے کا انکشاف دیگر کو اس منصوبے سے دور ہٹا سکتا ہے۔ اخبار کے مطابق حکام کو ایک مشکل یہ بھی ہے کہ معتدل عالم عام افراد کے قتل کو تو برا کہتے ہیں مگر وہ افغانستان میں امریکی فوج سے لڑنے والے افراد کی حمایت کرتے ہیں یا بھارت کے مخالف ہیں۔“
دو اہم راز : امریکہ کے نامور صنعت کار Henry Ford نے اپنی کتاب The International Jew میں یہودیوں کی خفیہ دستاویز پروٹوکولز کا حوالہ دیتے ہوئے 1920ءمیں ان دورازوں کو بیان کیا جن کی بنیاد پر کسی قوم کی مجموعی رائے کو اپنی گرفت میں کرکے انکی باہمی ہم آہنگی کو اس طرح ختم کیا جاتا ہے کہ اپنے دشمن کے سامنے سر عبدیت خم کر دیتے ہیں۔ وہ لکھتا ہے:
”عوامی رائے پر تسلط قائم کرنے کیلئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ عوامی رائے کو الجھا دیا جائے اس طور پر کہ مختلف سمتوں سے متضاد آراءکا اظہار کیا جائے۔ یہ پہلا راز ہے۔ (جاری)