مکرمی ! ابن خلدون فرماتے ہیں کہ ریاست و سلطنت کی بھی ایک عمر ہوتی ہے جو تین اجیال سے متجاوز نہیں ہوتی۔ جیل اجیال کا واحد ہے۔ جیل کا عرصہ تقریبا چالیس (40) برس کا ہوتا ہے۔ وطن عزیز ایک خاص طبقہ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔65 سال سے چند سیاسی گھرانے پشت در پشت حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اب ایک ایسے انقلاب کی اشد ضرورت ہے جو عوامی سطح کے لوگوں سے ایسے حکمرانوں کا انتخاب کرے جو قرآن و سُنت کے مطابق طرز جہانداری و جہانبانی اختیار کریں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر دہائی ہمارے سیاسی کلچر میں ایک منحوس اور بری تبدیلی کا پیغام لے کر آئی ہے۔ ایسی تبدیلوں نے ہمارے ملک کے عوام کے اذہان پر گہرے منفی اثرات ہی مرتب نہیں کئے بلکہ ہمارے سیاسی، معاشی، معاشرتی خارجی اور داخلی امور افراتفری کا شکار رہے۔ حکومت پاکستان کا پہلا جیل1987ءمیں ختم ہوتا ہے اس دوران میں ایسے ایسے دلخراش اور اندوہناک حادثات رونما ہوئے ہیں جنہیں دہرانے کی ہمت ہی نہیں پڑتی۔ حالات پہلے سے بھی زیادہ ابتر اور دگرگوں ہیں کہ اس دور میں ہمارا سیاسی کلچر اس قدر ضعف و زوال اور انحطاط و انتشار کا شکار ہو چکا ہے کہ قوم میں سود و زیاں کا احساس کلیتاً ختم ہو کر رہ گیا ہے قوم بڑی بے حس اور آرام طلب ہوگئی ہے۔ بعض سرکردہ عناصر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر تمام اخلاقی قدریں ملیا میٹ کررہے ہیں۔ نئے انتخابات کی آمد آمد ہے قوم کے ہر فرد کو ووٹ کا استعمال کر نا چاہیے اور صرف دیندار، صالح اور باکردار حضرات کو ووٹ دیں اور اس ماٹو کو سامنے رکھیں کہ آزمودہ ر آزمودن جہل است۔ ورنہ پرانے گھاگ سیاستدانوں کے وارث بھر بر سر اقتدار آ جائیں گے۔ (میاں محمد سعید شاد ۔ لاہور)