انتخابی جائزہ.... این اے 125 لاہور

این اے 125 شہری و دیہی علاقوں پر مشتمل حلقہ انتخاب ہے۔ ڈیفنس ہاﺅسنگ اتھارٹی کے پوش علاقے سمیت سفید پوش اور غریب آبادیاں بھی اس میں شامل ہیں۔ صدر بازار، والٹن روڈ اور اس سے ملحقہ آبادیاں، نادر آباد، حسین آباد، قاسم پورہ، چونگی امرسدھو، چرڑ پنڈ، قینچی، نشاط کالونی، ریلوے آفیسر کالونی، قادری کالونی، پیر کالونی، نیلا گوہاوا، سرورروڈ، الفیصل ٹاﺅن این اے 125 اور ذیلی صوبائی حلقوں پی پی 155، پی پی 156 کی نمایاں آبادیاں ہیں۔ الیکشن 1997ءمیں یہ حلقہ انتخاب لگ بھگ سارا ہی این اے 93 کے ذیلی صوبائی حلقے 119 میں شامل تھا۔ الیکشن 2008ءمیں یہاں رجسٹرڈ ووٹروں کی کل تعداد 3 لاکھ 11 ہزار 540 تھی جو کہ اب بڑھ کر 4 لاکھ 26 ہزار 54 ہوچکی ہے۔ اس حلقہ انتخاب میں لگ بھگ درجن بھر امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں جن میں سابق رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق مسلم لیگ (ن) کے واحد امیدوار ہیں جن کے کاغذات نامزدگی جمع ہوئے بلکہ یہ بتانا بیجا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) کے کسی بھی عہدیدار یا کارکن نے ماسوائے خواجہ سعد رفیق این اے 125 سے پارٹی کو ٹکٹ کیلئے درخواست ہی نہیں دی تھی۔ اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس حلقہ انتخاب سے الیکشن 2013ءمیں بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدوار خواجہ سعد رفیق ہی ہوں گے۔ سعد رفیق اس حلقہ انتخاب سے 2008ءمیں رکن قومی اسمبلی کے علاوہ 1997ءمیں ذیلی صوبائی حلقے سے رکن پنجاب اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ این اے 125 سے مسلم لیگ ہم خیال کے سیکرٹری جنرل ہمایوں اختر خان نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کروا رکھے ہیں وہ 2002ءمیں یہاں سے رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ انکے چھوٹے بھائی ہارون اختر خان ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 119 سے 1993ءمیں رکن پنجاب اسمبلی رہے ہیں۔ ہمایوں اختر خان نے اس مرتبہ الیکشن لڑنے کیلئے سات حلقوں سے کاغذات داخل کروائے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان میں سے کسی بھی حلقہ انتخاب سے ٹکٹ کے منتظر محسوس ہوتے ہیں۔ انہیں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اکاموڈیٹ کئے جانے کی صورت میں این اے 125 میں ہمایوں اختر خان کا تھوڑا بہت جتنا بھی ووٹ بنک ہے، مسلم لیگ (ن) کے یہاں سے امیدوار خواجہ سعد رفیق کو جائیگا بصورت دیگر مختلف امیدواروں میں تقسیم ہوجائیگا۔ یہاں سے تیسرے اہم امیدوار نوید چودھری ہیں جو کہ پیپلز پارٹی کے اہم رہنماﺅں میں شمار ہوتے ہیں۔ صدر آصف زرداری کے کوآرڈینیٹر ہیں اور اس حلقہ انتخاب میں الیکشن 2002ءاور 2008ءمیں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے لیکن شکست انکا مقدر بنی۔ چوتھے قابل ذکر امیدوار پاکستان تحریک انصاف کے چوٹی کے رہنماءحامد خان ہیں۔ یہ حلقہ انتخاب بقول پاکستان تحریک انصاف والوں کے لاہور میں انکا سب سے مضبوط حلقہ انتخاب ہے۔ یہاں سے تحریک انصاف لاہور کے صدر عبدالعلیم خان بھی الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ انکے علاوہ پارٹی کے ایک بانی رکن و اہم رہنماءعمر سرفراز چیمہ بھی تحریک انصاف کی ٹکٹ کے خواہاں تھے۔ عمر سرفراز چیمہ نے تحریک انصاف کی جانب سے ذیلی صوبائی حلقہ پی پی 156 کا 2004ءمیں ضمنی الیکشن لڑا تھا۔ اس وقت یہ حلقہ مسلم لیگ (ن) کے رکن پنجاب اسمبلی شیخ امجد عزیز مرحوم کے نااہل ہونے کے باعث خالی ہوا تھا۔ عمر سرفراز چیمہ کو (ق) لیگ کے شعیب صدیقی کے ہاتھوں شکست اٹھانا پڑی۔ اس وقت سے عمر سرفراز چیمہ پارٹی کی ہدایت پر اس حلقہ انتخاب میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کیلئے کام کررہے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ انہیں انٹراپارٹی الیکشن میں عمران خان کے منع کرنے کے باوجود پارٹی کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کیخلاف صدر کے عہدے پر الیکشن لڑنے کی سزا دی گئی ہے۔ انہیں نہ صرف این اے 125 سے ٹکٹ نہیں دی گئی بلکہ جس دوسرے حلقے میں انہوں نے درخواست دے رکھی تھی وہاں بھی نظرانداز کیا گیا۔ عمر سرفرازچیمہ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں 1997ءاور 2002ءمیں پارٹی الیکشن لڑوا چکی ہے۔ بہرحال پارٹی نے یہاں سے حامد خان کو میدان میں اتارا ہے جو کہ سنجیدہ مزاج نامور وکیل ہیں۔ وکلاءسیاست کے ماہر ہیں لیکن عام انتخابات میں کارکنوں کو ساتھ لیکر چلنا ان جیسے مزاج کے شخص کیلئے بہت دشوار ہوگا۔ انکے برعکس مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کارکنوں میں ہردلعزیز اور پارٹی کارکنوں کو ساتھ لیکر چلنا کوئی ان سے سیکھے۔ پیپلز پارٹی کے نوید چودھری بھی اپنی خوش مزاجی کے باعث پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور ووٹروں میں خاصے مقبول ہیں۔ نوید چودھری اس الیکشن میں اپنی ارائیں برادری کا بھی سہارا لے رہے ہیں بلکہ یہ کہنا نامناسب نہیں ہوگا کہ اپنی برادری کو غیرت دلا رہے ہیں کہ انکا امیدوار ہر بار شکست سے دوچار ہوجاتا ہے، ہوش میں آﺅ۔ این اے 125 سے ایک اور قابل ذکر امیدوار حاکم علی بھٹی بھی ہیں جو کہ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے ہیں۔ حاکم علی بھٹی اور انکے صاحبزادے فیصل بھٹی اگرچہ مسلم لیگ (ن) میں شامل نہیں تھے لیکن انکی ہمدردیاں 2008ءسے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ رہیں۔ حاکم علی بھٹی نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 125 اور فیصل بھٹی نے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 155 کیلئے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کیلئے درخواستیں دی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پارلیمانی بورڈ میں جب نوازشریف امیدواروں کے انٹرویو لے رہے تھے تو رپورٹنگ کیلئے راقم الحروف بھی وہاں موجود تھا۔ حاکم علی بھٹی اور فیصل بھٹی کا نام پکارا گیا تو پارلیمانی بورڈ کے رکن خواجہ سعد رفیق نے فیصل بھٹی کا نوازشریف سے تعارف کروایا۔ نوازشریف نے پوچھا ”حاکم علی بھٹی صاحب تشریف نہیں لائے؟“ فیصل بھٹی نے نفی میں جواب دیا۔ حاکم علی بھٹی سابق رکن پنجاب اسمبلی اور کنٹونمنٹ بورڈ کے سابق وائس چیئرمین ہیں۔ انکا تعلق چرڑ گاﺅں سے ہے۔ حاکم علی بھٹی نے مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے حصول سے مایوس ہو کر خود این اے 125 اور صاحبزادے فیصل بھٹی کو پی پی 155 اور 156 سے آزاد امیدوار ڈیکلیئر کرکے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ این اے 125 میں دیگر امیدواروں میں جماعت اسلامی کے وقار ندیم وڑائچ بھی اہم امیدوار ہیں۔ خواجہ سعد رفیق اپنے ہمراہ سابق ممبران پنجاب اسمبلی میاں نصیر اور یٰسین سوہل کو لیکر کارنر میٹنگز کررہے ہیں۔ ڈور ٹو ڈور مہم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ادھر پیپلز پارٹی کے امیدوار نوید چودھری اپنے ہمراہ پی پی 155 کے امیدوار اشرف بھٹی اور پی پی 156 کے امیدوار افتخار نیازی کو ساتھ لیکر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ نوید چودھری اس مرتبہ پرامید ہیں کہ کامیابی انکے قدم چومے گی۔ ادھر پاکستان تحریک انصاف اپنے تمام تر اندرونی پارٹی خلفشار کے باوجود اپنے ووٹروں سے پرامید ہے کہ انہیں این اے 125 میں کامیابی سے ہمکنار کرینگے۔ حامد خان نے ریلی نکال کر اپنی انتخابی مہم کا بھرپور انداز میں آغاز کردیا ہے۔ حاکم علی بھٹی بھی ہائی سپرٹ میں ہیں اور الیکشن جیتنے کے دعویدار ہیں۔ ادھر سابق رکن قومی اسمبلی خواجہ سعد رفیق حسب سابق دعوﺅں سے گریزاں ہیں اور کہتے ہیں اللہ کی مہربانی اور ووٹروں کی نوازشریف اور ان سے محبت پر بھروسہ ہے، اللہ خیر کریگا۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنی انتخابی مہم جاندار انداز میں چلانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور آنیوالے چند دن میں این اے 125 کی رونقیں دیکھنے والی ہوں گی۔ نتائج کے حوالے سے امیدواروں کی توقعات اور خواہشات اپنی جگہ، لیکن اس حلقہ انتخاب میں خواجہ سعد رفیق کا پلڑا بھاری ہے۔ اسکے باوجود یہاں مقابلہ دلچسپ رہے گا۔
....٭....٭....٭....

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...