کون کرے نگرانیاں، کیسے ہوں مہربانیاں

نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ کے طور پر جو کرسکتے ہیں، کررہے ہیں مگر نجانے کیوں انکے خیالات سے اختلاف کے باوجود میری خواہش ہے کہ وہ کچھ کرپائیں۔ وہ جو باقاعدہ حکمران ہوتے ہیں، وہ کچھ نہیں کرتے۔ جس نے کرنا ہے وہ پانچ ہفتوں میں کرسکتا ہے، جنہوں نے نہیں کرنا ہوتا وہ پانچ برسوں بلکہ دوسرے پانچ برسوں میں بھی نہیں کرسکتے۔ تیسری بار حکمران بننے والے بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ کردینگے وہ کردینگے۔ ”یہ“ ”وہ“ کرنیوالے کچھ نہیں کرتے اور....ع
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
یہ کمال پچھلے پچاس ساٹھ برسوں سے ہورہا ہے۔ یہ لوگ اتنے صاحب کمال ہیں کہ الیکشن میں بھی کوئی نہ کوئی ”کمال“ دکھاتے ہیں اور قدم مسلسل زوال پذیر ہیں۔
سو پیارے سیٹھی صاحب کچھ اچھا کرپائیں۔ بڑے کام کی کسی حکمران سے توقع ہی نہیں۔ یہ جو کام آپ سے کروائے جا رہے ہیں، اچھے ہیں نہ برے ہیں۔ بہرحال کام تو ہیں۔ آپ نے آتے ہی بسنت منانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ اعلان نجانے آپ سے کس نے کروایا تھا۔ اس نے اپنے طور پر بڑا تیر مارا ہوگا۔ پھر یہ کام آپ کو کس نے نہ کرنے دیا۔ اس نے بھی کوئی تیر مارا ہوگا۔ تیر پیپلز پارٹی والوں کا انتخابی نشان بھی ہے، احتیاط اچھی ہے، کہیں یہ نہ ہو آپ دیکھتے رہ جائیں
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
میرا خیال ہے کہ یہ نہیں ہوا تو اچھا ہوا۔ جس کام میں کچھ برا ہو وہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ نجم سیٹھی نے ہفتے کی بھی چھٹی کردی ہے۔ چھٹی کے دن نجم سیٹھی کے ہمسائے میں افسران کی سیرگاہ میں بہت ہجوم تھا۔ اب یہاں افسران نہیں آتے کہ دوسرے انسان بھی آجاتے ہیں۔ ہفتے کی چھٹی کے کارنامے پر بات اس کالم میں ہوگی۔ ریس کورس گراﺅنڈ کے اندر سیر کرتے ہوئے ایک دوست نے بتایا کہ سیرگاہ کے ساتھ پی ایچ اے کا دفتر ہے۔ وہاں پروموشن کے حوالے سے بڑے گھپلے اور زیادتیاں ہوئی ہیں۔ اسکے ساتھ نگران حکومت کا تعلق تو شاید نہ ہو مگر اسی دور حکومت میں یہ ”کمال“ ہوا ہے۔ واہ کینٹ میں المعید ہسپتال والوں نے عاصمہ نام کی ایک بیٹی کے ساتھ ظلم کیا ہے۔ وہ پہلے سے ڈاکٹر فاطمہ کی مریض تھی۔ اسکا بچہ پیدا ہوا تو زندہ تھا۔ وہ عجیب طریقے سے مر گیا۔ اس صدمے کے دوران لوٹ مار جاری رہی۔ یہ قتل بھی ہے مگر ڈی ایس پی ٹیکسلا واہ سرکل کوئی توجہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔ المعید ہسپتال سے ایسی شکایات آتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کا انسانیت سوز رویہ ایک جرم ہے بلکہ ظلم ہے۔ اسکی تفصیل بیٹی عاصمہ کے پاس ہے۔ اسکے علاوہ سرکاری اور غیرسرکاری ہسپتالوں میں ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ انتظامیہ کے بے ہنگم اور بھرپور تبادلوں سے نگران حکومت کو فرصت ملے تو وہ اس ظلم کو بھی دیکھے۔ الیکشن سے پہلے جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی نگرانوں کی ذمہ داری ہے، کوئی توجہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔
اپنی ناک کے نیچے پی ایچ اے میں دھاندلی کا بھی نوٹس لیں۔ انجینئرنگ ونگ ہارڈ لینڈ سکیپ کے نام پر طویل پل کے نیچے کروڑوں کے گھپلے کی خبر ہے۔ غیرضروری تبادلوں کیلئے بھی کروڑوں روپے کی خبریں ہیں۔ ڈی سی او کے بعد ای ڈی او کی باریاں لگ گئی ہیں۔ انکا الیکشن کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ کسی الیکشن سے پہلے تبادلوں کی بھرمار نہ ہوئی تھی۔ یہ وکھری ٹائپ کا الیکشن ہے، کہتے ہیں جو کچھ کرنا کرانا ہے، کرلو کروالو، ایسا موقع پھر نہ آئیگا۔ الیکشن تو نجانے ہوں گے کہ نہیں، سلیکشن تو ہوجائے بلکہ ”کلیکشن“ تو ہوجائے۔ الیکشن کیلئے اشتہاری مہم بہت اہم ہے۔ پی ایچ اے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ میں بینروں، پوسٹروں اور اشتہاری مہم کیلئے انڈر ہینڈ غیرقانونی لین دین کا پتہ چلا ہے۔ یہ خبریں نجم سیٹھی کی چڑیا تک نہیں پہنچنے دی جاتیں۔ بیجوں کی خریداری میں کروڑوں کا فراڈ کرنیوالوں کیلئے صوبائی اسمبلی میں انکوائری چلتی رہی ہے۔ نیب میں ایسے کئی مقدمات زیرالتواءہیں۔ یہ لوگ اسقدر بے خوف ہیں کہ 19 گریڈ کیلئے تجربہ کار اور سینئرز کو نظرانداز کرکے قانون اور قاعدے کی دھجیاں بکھیری گئی ہیں۔ ایسا ہو کہ نگران حکومت میں وہ نہ ہو جو باقاعدہ حکومت میں ہوتا ہے۔ یہ بھی ثابت ہو کہ اب حکمران سیاستدان نہیں ہے ایک صحافی ہے۔
ہفتے کی چھٹی سے ملازمین تو خوش ہوگئے ہوں گے۔ افسران کیلئے تو سارے دن چھٹی کے ہوتے ہیں، وہ تو اختیارات اور فنڈز کے استعمال کی پکنک منانے دفتر میں آتے ہیں۔ ویسے یہ کام بڑی دلیری کا ہے، اس میں شہبازشریف کے ناراض ہونے کا اندیشہ بھی ہے ورنہ انکے سوچنے کا کام تو ہے کہ انہوں نے ہفتے کی چھٹی کیلئے وفاقی حکومت کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا تھا۔ پرویز رشید نے بھی کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ یہ جو تبادلوں کا طوفان آیا ہے یہ بھی شہبازشریف پر عدم اعتماد ہے۔ انکے لگائے ہوئے افسران الگ کردئیے گئے ہیں مگر انکی طرف سے خاص ردعمل نہیں آیا تو اسکا مطلب ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر سب افسران اپنے ہیں۔ افسرشاہی پر یہ وقت بھی آنا تھا
ہر گھر سے افسر نکلے گا
تم کتنے افسر بدلو گے
میں نے پہلے کالم میں ”تبادلوں کا سونامی“ لکھا تھا تو تحریک انصاف کے کچھ دیوانے خفا ہوگئے تھے، ہم اس لفظ کا مذاق بنانے کی اجازت نہیں دینگے۔ ایک گزارش ہے کہ ہفتے کی چھٹی ہم نے لوڈشیڈنگ میں گزاری۔ بجلی کے بحران کیلئے یہ معرکہ آرائی ہے تو اس سے اذیت میں اضافہ ہوا ہے۔ اتوار کی چھٹی بھی اس طرح گزری کہ چھٹی کااحساس بھی نہ ہوا۔ ہم ویسے ہی چھٹی منانا بھول گئے ہیں، بس سارا دن سو کے گزار دیتے ہیں۔ لوڈشیڈنگ میں یہ آرام بھی نہیں ملتا۔ یہ جو نگران مشیر ہیں یہ اب کہیں گے کہ جمعہ کی چھٹی بھی کرو۔ خوامخواہ جمعہ کی نماز کی وجہ سے آدھا وقت لگ جاتا ہے اور کسی کو کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا۔ ایک کارنامہ نوازشریف نے وزیراعظم بنتے ہی کیا تھا کہ تب جمعہ کی چھٹی فوراً بند کردی تھی اور اتوار کی چھٹی بحال کردی تھی۔ بھٹو صاحب نے مذہبی جذبے سے مغلوب ہوکر بلکہ مذہبی لوگوں کو راضی کرنے کیلئے جمعہ کی چھٹی کی تھی۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ جمعہ کی نماز ضرور پڑھو۔ وہ خود نہ پڑھتا تھا، یہ بھی نہ کہا تھا کہ نماز پڑھنے کے ساتھ نماز قائم بھی کرو۔ قرآن میں ہر جگہ نماز قائم کرنے کی ہدایت آئی ہے۔ ہمارے مولوی صاحبان بھی سیاستدان ہوگئے ہیں۔ نوازشریف نے تب بھی ثابت کیا تھا کہ وہ روشن خیال ہیں۔ جنرل ضیاءالحق سے ”پرانی نیازمندی“ کی وجہ سے انہیں بھی لوگ مذہبی سیاستدان سمجھتے ہیں۔ وہ جمعہ کے ساتھ ہفتے، اتوار کی بھی چھٹی کرسکتے تھے۔ ہر طرف ملک میں اسکی واہ واہ ہوجاتی اور ”باہر کے لوگ“ بھی خوش ہوجاتے مگر انکا مقصد شاید صرف باہر کے لوگوں کو خوش کرنا تھا۔ نجم سیٹھی نے بھی محتاط رویہ اپنایا ہے اور یہی سیاست ہے بلکہ یہی صحافت ہے۔
نجم سیٹھی نے ایک اہم اجلاس میں کہا کہ مقتدر ایجنسی مجھے قتل کرانا چاہتی ہے۔ ہال میں سناٹا چھا گیا۔ اللہ سیٹھی صاحب کو محفوظ رکھے۔ اس سے ایک دن پہلے مجید نظامی کی صدارت میں خصوصی گفتگو کے دوران جنرل حمید گل نے کہا کہ نجم سیٹھی کیلئے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر پہلی منظوری ڈی جی آئی ایس آئی نے دی تھی۔ اسکے بعد نوازشریف نے منظوری دی۔ اسکے ساتھ جنرل حمید گل نے بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کیلئے ”دیت کا“ معاملہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا نے پیش کیا تھا۔ عدالتی فیصلے کے وقت وہ ساتھ والے کمرے میں موجود تھے۔ عمران کو نئے سرے سے لانے کا سہرا بھی جنرل پاشا کے سر ہے۔
....٭....٭....٭....

ای پیپر دی نیشن