مشرف پر غداری کا مقدمہ: وفاق نے کیا اقدامات کئے‘ سپریم کورٹ‘ جواب کل طلب

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ + این این آئی) سپریم کورٹ میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس میں عدالت نے میں قرار دیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک سینٹ قرارداد پر عمل نہیں کیا نہ اپنے م¶قف سے عدالت کو آگاہ کیا گےا اور نہ ہی عدالت عظمیٰ کے 31 جولائی 2009ءکے فیصلہ پر عمل درآمد کیا گےا، عدالت نے اٹارنی جنرل کو حکومت کے م¶قف سے آگاہ کرنے اور درخواستوں پر ابتدائی تحریری اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت کی، عدالت میں ایک بار پھر مشرف کے وکیل کی جانب سے لاجر بنچ بنانے کی استدعا کی گئی، عدالت نے مقدمہ میں فریق بننے کے لئے دو مزید درخواستیں منظور کر لیں، عدالت کو مطمئن نہ کرنے پر سیکرٹری قانون سہیل قدیر صدیقی کی سرزنش کی گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہم نے ایک بار وفاق کو نوٹس بھیج دےا تھا دعوت نامہ نہیں بھیج سکتے، 31 جولائی کے فیصلے کے بعد وفاق نے کیا کارروائی کی؟ وفاق اصل بات کی بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے ہر آدمی اس کیس کو دیکھ رہا ہے سب حقائق جاننا چاہتے ہیں، سپیشل بنچ قائم کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ وفاق سمجھتا ہے کہ آئین قانون ایک مذاق ہے کوئی اس کے ساتھ کچھ بھی کرے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گذار اور ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علی زئی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ان سے معاملے پر حکومتی م¶قف کے بارے میں استفسار کےا تو انہوں نے کہا انہیں کوئی ہدایت نہیں ملی ہے اور اٹارنی جنرل دوسرے بنچ میں مصروف ہیں، عدالت نے سیکرٹری قانون کو وقفے تک طلب کر لےا۔ سپریم کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر نے سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاق سے کل جواب طلب کر لیا ہے، سپریم کورٹ کے ججز نے کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کیلئے کیا اقدامات کئے گئے، تین نومبر کی ایمرجنسی پر وفاق کا کیا موقف ہے، کیا ان پر آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے یا نہیں اور آرٹیکل 6کا اطلاق ہوتا ہے تو کارروائی آگے بڑھے گی؟ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق دائر درخواستوں پر عدالتی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 31 جولائی 2009ءکے عدالتی فیصلے میں اعلیٰ عدالتوں کے مخصوص ججز کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ پرویز مشرف کا ساتھ دینے والے فوجی افسروں سمیت دیگر افراد کو نوٹس تک جاری نہیں کئے گئے۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس بھیجا ہے دعوت نامہ نہیں بھیجا، تعجب ہے ایک شخص آئین پامال کر رہا ہے اور کیا وفاق تماشا دیکھتا رہے گا۔ حکومت کو اس کیس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ اس کیس کے دور رس نتائج نکلیں گے۔ درخواست گذار اقبال حمید الرحمان کے وکیل اے کے ڈوگر نے دلائل میں کہا کہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ ہائیکورٹ کی سطح پر چلایا جا سکتا ہے جس کیلئے قانون موجود ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ پر سپریم کورٹ کا 31 جولائی 2009ءکا فیصلہ آئے چار سال گزر گئے، پھر سینٹ نے پرویز مشرف کی گرفتاری کےلئے قرارداد منظور کی، عدالت کو تفصیل سے بتایا جائے کہ وفاق نے چار سال کے عرصے کے دوران اور پرویز مشرف کی واپسی پر کیا کیا؟ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ کیا وفاق یہ کہنا چاہتا ہے کہ آئین کے ساتھ جو کچھ مرضی ہو، وہ خاموش تماشائی رہے گا؟ وفاق کو ایک ہفتے پہلے نوٹس جاری کیا ابھی تک جواب نہیں آیا، یہ ایسا کیس ہے جس میں وفاق کو دلچسپی لینی چاہئے۔ وزارت قانون کے سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے عدالت میں ریکارڈ پیش کیا کہ 31 جولائی 2009ءکے فیصلے پر ججز کی حد تک عمل درآمد ہو گیا۔ اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ وفاق نے انہیں ابھی ہدایات جاری کیں اور وہ پیش ہو گئے ہیں ان کا پہلا فرض ہے کہ کوئی بھی ردعمل دینے سے پہلے عدالت کو ممکنہ قانونی اعتراضات سے آگاہ کریں، انہیں درخواستوں پر نہیں، عدالتی کارروائی پر اعتراض ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ہدایت کی کہ قانونی اعتراضات زبانی نہیں، تحریری طور پر جمع کرائیں۔ بعد میں جاری عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اب تک کی سماعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینٹ کی قرارداد ہو یا عدالتی حکم، وفاق نے پرویز مشرف سے متعلق کوئی کارروائی نہیں کی، اٹارنی جنرل جواب جمع کرائیں گے تو دنیا کو پتہ چل جائے گا کہ وفاق کا کیا م¶قف ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف کا صرف اعلان کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دینا چاہئے۔ عدالت نے وفاقی حکومت سے اٹارنی جنرل کے توسط سے دو روز کے اندر اندر جواب داخل کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اقدامات درست تھے تو پھر 31 جولائی 2009ءکے فیصلے کا کیا بنے گا؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ پرویز مشرف کے خلاف ملکی آئین توڑنے سے متعلق سپیشل بنچ کی تشکیل کی ذمہ داری فیڈریشن کی ہے۔ قبل ازیں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ خالد جنجوعہ نے کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی۔ درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا کہ لاپتہ افراد کی ذمہ داری بھی پرویز مشرف پر عائد ہوتی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ 31 جولائی 2009ءکا فیصلہ آئے 4 سال گزر گئے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اس دوران فیڈریشن نے کیا کیا، ہم نے اٹارنی جنرل کو نہیں وفاق کو ہی نوٹس دینا ہے، وفاق کسی کو بھی پیش ہونے کے لئے کہہ سکتا ہے، ہم اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا دعوت نامہ نہیں بھیج سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت شروع ہوئی تو وفاق کی طرف سے کوئی نمائندہ پیش نہ ہوا جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم نے وفاق کو نوٹس جاری کیا تھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم اٹارنی جنرل کو نوٹس نہیں دیں گے۔ وفاق کو نوٹس جاری کریں گے وہ جس کو چاہے نمائندہ بنا کر بھیج دے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ وفاق کے رویہ پر یہ تعجب ہے جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ یہ ایسا کیس ہے جس میں فیڈریشن کو دلچسپی لینی چاہئے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ 31 جولائی 2009ءکو فیصلہ دیا چار سال میں وفاق نے کوئی اقدام نہیں کیا عدالت جاننا چاہتی ہے کہ اس معاملہ میں وفاق نے کیا کیا۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ بتایا جائے کہ اگر کوئی شخص آئین توڑتا ہے تو وفاقی حکومت کا اس پر کیا م¶قف ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کیس کی دو سماعتیں ہو چکی ہیں لیکن وفاق کی طرف سے کوئی پیش نہیں ہوا جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ صدر اور وزیر اعظم آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتے ہیں، نہ جانے صدر اور وزیر اعظم کو اس کیس میں کیا ہو گیا۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ ہم کسی کو پیش ہونے کے لئے دعوت نامہ نہیں بھیج سکتے کسی نے آنا ہے آئے نہیں آنا تو نہ آئے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 31 جولائی 2009ءکے فیصلہ میں قرار دیا تھا کہ پرویز مشرف کا تین نومبر 2007ءکا اقدام آئین توڑنے کے مترادف ہے۔ اس پر وفاقی حکومت نے اب تک کیا اقدام کیا کیا حکومت کو اس سے دلچسپی نہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ کیا وفاق آئین کو مذاق سمجھتا ہے کہ جس کا جی چاہے اس کو توڑ دے ۔ وفاق اس پر کچھ بھی نہیں کریگا۔ جسٹس جواد خواجہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے کہا کہ انتظامی سائیڈ پر ہیں اور قانونی معاملات نہیں جانتے۔ جسٹس جواد نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ چار سال میں اس کیس میں کیا کیا تاریخ وار بتائیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انہیں درخواستوں پر اعتراض نہیں عدالتی کارروائی پر اعتراض ہے اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جو باتیں آپ کہہ رہے ہیں یہ پرویز مشرف کو تو زیب دیتی ہیں لیکن وفاقی حکومت کا اٹارنی جنرل ایسی بات نہیں کر سکتا۔ اٹارنی جنرل حکومت اور عدلیہ کے درمیان پل کا کام کرتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وفاق کا جو بھی موقف ہے اٹارنی جنرل لے آئیں۔ بتایا جائے کہ وفاق نے گذشتہ چار سال کے دوران یا مشرف کی وطن واپسی کے بعد ان کے خلاف کیا اقدامات کئے۔ پاکستان بار کونسل کی متفقہ قرارداد میں پرویز مشرف کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا، وزارت قانون کے جوائنٹ سیکرٹری سہیل صدیقی نے 31 جولائی کے فیصلہ پر عملدرآمد کے حوالہ سے ریکارڈ عدالت میں پیش کیا ان کا کہنا تھا کہ 31 جولائی کے فیصلہ پر ججز کی حد تک عملدرآمد ہو گیا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے جوائنٹ سیکرٹری وزارت قانون سے کہا کہ اٹارنی جنرل عرفان قادر آ گئے ہیں اس لئے قانونی معاملات کا بوجھ ان پر نہیں ڈالیں گے۔ جسٹس جواد نے جوائنٹ سیکرٹری سے کہا کہ صرف ریکارڈ دیکھ کر بتا دیں اب تک کیا ہوا، پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالت پہلے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ دے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہاکہ پہلے وفاق کا جواب آ جائے پھر فیصلہ کریں گے۔جسٹس جواد نے جوائنٹ سیکرٹری قانون سے پوچھا کہ 31 جولائی 2009ءکے بعد سے اب تک وزارت قانون نے کیا کیا؟ جسٹس خلجی عارف نے کہا آپ کہہ دیں کہ آرٹیکل 6 سے متعلق اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے جوابدیا جی بالکل ایسا ہی ہے۔ سینئر جوائنٹ سیکرٹری وزارت قانون نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 6 سے متعلق کچھ نہیں پتہ۔ مشرف سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں، الیکشن کمشن کو اقدام کرنا چاہئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ تو ایک لطیفہ ہے جو آپ سنا رہے ہیں۔ سینئر جوائنٹ سیکرٹری نے کہا کہ قانونی معاملات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ جسٹس جواد نے استفسار کیا کیا آپ اس بات کی سنگینی سے واقف ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں؟ کب سے سیکرٹری قانون موجود نہیں؟ فاضل جج نے کہا مشرف کی واپسی پر گرفتاری کیلئے سینٹ نے قرارداد منظور کی، وفاق نے کیا کیا۔ وفاق بتائے مشرف پر آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ 31 جولائی 2009ءکے فیصلے پر عدالت نے وفاق سے تحریری جواب طلب کر لیا گیا۔ پرویز مشرف نے تحریری جواب میں کہا ہے کہ قانون کے مطابق غداری کے مقدمے کی کارروائی صرف وفاقی حکومت کر سکتی ہے۔ عدالت وفاقی حکومت کو غداری کے مقدمے کی ہدایت نہیں دے سکتی۔ سپریم کورٹ نے کوئی ایسی ہدایت دی تو اختیارات سے تجاوز ہو گا۔ چھ سال کے بعد اس مقدمے میں کارروائی کرنا قانونی تقاضوں کے منافی ہے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس فل کورٹ میں شامل نہ ہوں۔ فرد واحد درخواست دینے کا اہل نہیں۔ سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...