لاہور (خصوصی نامہ نگار) سابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ پوری دنیا کے فیصلے جنوبی ایشیا کے خطے میں ہورہے ہیں، افغانستان اور بھارت کے انتخابات کے نتائج خطے کے مستقبل کو بڑی حد تک واضح کردیں گے، حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی کامیابی نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں امن و ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے، پاکستان امریکہ اور نیٹو کا ساتھ نہ دیتا تو امریکہ کئی سال پہلے ہی شکست سے دوچار ہو کر خطہ چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا، پاکستان کو خطے میں ویٹو پاور حاصل ہے اور اپنے شاندار سٹرٹیجک محل وقو ع کی بدولت پاکستان فیصلہ کن حیثیت کا مالک ہے، پاکستان نے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کے امریکی منصوبہ کا ساتھ دیا تو یہ ملکی سالمیت کے لیے زہر قاتل اور آئندہ نسلوں کو دوبارہ ہندو کی غلامی میں دینے کے مترادف ہوگا، پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم مسلم لیگی حکومت کو ناکام بنانے کے ایجنڈے کے تحت آپریشن کی باتیں کررہی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منصورہ میں جاری مرکزی تربیت گاہ کے آخری سیشن اور نائب امیر جماعت اسلامی پنجاب وقار ندیم وڑائچ کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے پروفیسر محمد ابراہیم، ڈاکٹر سید وسیم اختر اور وقار ندیم وڑائچ نے بھی خطاب کیا۔ سید منور حسن نے کہاکہ امریکہ افغانستان میں ناکامی کے بعد اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خطے میں شیطانی کھیل کھیل رہا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر وہ بھارت کو خطے میں بالادست قوت بنانے اور چین کے کردار کو محدود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ امریکہ نہ صرف افغانستان بلکہ بھارت میں بھی ایسی حکومت چاہتا ہے جو اس کے اشاروں پر ناچتے ہوئے ایران پاکستان اور افغانستان پر مشتمل مسلم بلاک کی تشکیل کے امکان کا راستہ روک سکے۔ انہوں نے کہاکہ اب حکومت خاص طور پر نوازشریف کی حکمت و تدبر اور جرأت کا امتحان ہے کہ وہ ان مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے کتنا دم خم رکھتے ہیں۔ پروفیسر محمد ابراہیم خان نے کہاکہ طالبان پاکستان کے اس آئین کو مانتے ہیں جس میں قرآن و سنت کو ملک کا سپریم لاء تسلیم کیا گیا اور اس کے خلاف ہونے والی قانون سازی کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر نے کہاکہ موجودہ حکومت سے عوام نے جو امیدیں وابستہ کی تھیں وہ مایوسی میں بدل گئی ہیں۔