جنرل پرویز مشرف امریکی دہری پالیسی کا شکار ہیں امریکہ واتحادی ممالک کو پاکستانی جمہوری حکومت اور فوجی شخصیت سے کوئی پیار نہیں۔ اسے اپنی پالیسی سے پیار ہے۔ پالیسی کا حال یہ ہے کہ پرویز مشرف زندان میں ہیں اور پالیسی پروان چڑھ رہی ہے پروپز مشرف نے 9\11 کے بعد امریکی دباﺅ تلے امریکہ کیلئے وہ کچھ کیا جس پر امریکی حکام بھی حیران تھے۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب ”راہ نار میں“ "In The Line Of Fire" میں لکھا ہے کہ امریکہ ایک مجاہد کی حوالگی کا 5 ہزار ڈالر معاوضہ دیتا تھا اور امریکی جنرل زینی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ 9\11 کے وقت پرویز مشرف امریکی مقتدر حلقوں میں ناآشنا تھا لہٰذا ان سے بات کرنا مشکل تھا لیکن انہوں نے جس طرح باتیں مانیں، وہ ہم سب کیلئے حیرانی کا باعث اور تسلی بخش تھیں۔ 12 اکتوبر 1999ءمیں امریکہ نواز شریف سے ناراض تھا۔ ناراضی کا سبب اعلان تکبیر یعنی چاغی میں جوہری دھماکے اور افغانستان میں ملاعمر کی حکومت کو تسلیم کرنا تھا۔ جبکہ کارگل سازش کے تحت پرویز مشرف کو عوامی ہیرو اور نواز شریف کو زیرو بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب اور ضیاالحق عوامی دباﺅ اور تحریک کا نتیجہ تھے جب کہ پرویز مشرف ڈرائنگ روم سازش کا ثمر تھے۔ 9\11 اور 12 اکتوبر 1999ئ، امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی تعمیل کا سنگ میل ہیں۔ بے نظیر پاکستان کے مقتدر فوجی حلقوں کیلئے بے لگام مہرہ نہیں تھیں۔ فوج کو قابو رکھنے کیلئے بے لگام لیڈر کی ضرورت تھی جو امریکہ کو پرویز مشرف کی شکل میں میسر آیا۔ فوج کو بحیثیت ادارہ مصروف رکھنے کیلئے پاک بھارت سرحدی کشیدگی کو 9 ماہ جاری رکھا گیا۔ فوج بھارتی سرحد پر ریڈ الرٹ رہی اور مشرفی حلقوں نے بھارت کو امریکی و اتحادی حلیف کی صورت میں پاک افغان سرحد کی قوت بنا دیا۔ جب فوج کو بحیثیت ادارہ حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا تو فوج نے پاکستان کی خودمختاری سلامتی کیلئے قبائلی شہریوں کیساتھ سٹریٹجک ”وانا معاہدہ“ کیا۔ ”وانا معاہدہ“ کیخلاف دھمکی دینے کیلئے امریکی نائب صدر ڈک چینی خود تشریف لائے۔ اب فوج کیلئے ”دھمکی بہ نیم شب“ بذریعہ پرویز مشرف کارگر نہیں تھی۔ فوج پرویز مشرف کے ”یو ٹرن“ کے مضمرات کو بھانپ گئی۔ جس کیلئے امریکی دباﺅ سے نکلنا اور اکھنڈ بھارت کے مذموم عزائم کوسمجھنا اور قوم کو سمجھانا ضروری تھا۔ مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ امریکہ، بھارت اور اتحادی ممالک نے پاکستان کے اندر اپنا استعماری نیٹ ورک مضبوط کر لیا ہے۔ فوج بحیثیت ادارہ بھارت اور افغان مسئلہ میں امریکی دباﺅ سے نکلنے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی معزولی، خودساختہ جلاوطنی اور اسیری کا سبب امریکی ناراضی ہے۔ امریکہ جنرل پرویز مشرف سے اس لئے ناراض تھا اور ہے کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں اپنا فوجی جانشین تیار نہیں کیا۔ جنرل کیانی نے نہ صرف فوج کے وقار کو بحال کیا بلکہ شمالی وزیرستان میں بھرپور فوجی آپریشن کو ٹالتے رہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے قیام امن کیلئے قبائلی عوام سے ”وانا معاہدہ“ جیسے معاہدے کےلئے بات چیت شروع کر رکھی ہے۔ اس وقت خطے کی سٹریٹجک پوزیشن بارود کے دھانے اور نئے یو ٹرن پر کھڑی ہے اس وقت افغانستان سے امریکی فوجی انخلا جاری ہے۔ امریکہ و اتحادی اہداف کراچی اور گوادر تک تجارتی راہداری پر اجارہ داری کے ہیں۔ تجارت کے فروغ یعنی ریاستی اداروں کی نج کاری اور غیر ملکی اتحادی سرمایہ کاری کیلئے شریف سرکار کا متبادل موجود نہیں ہے۔ پرویز مشرف پر مقدمہ لاحاصل سعی ہے۔ پرویز مشرف کو عدالتی کارروائی کی پیروی میں کئی سال لگ جائینگے۔ اس عدالتی پیروی میں ایوب خان اور ضیاالحق کیخلاف بھی آواز نکلے گی اور نواز شریف کیلئے بنگلہ دیش کی حسینہ واجد بن جانے کا خطرہ بھی رہے گا۔ویز مشرف کے مقدمے میں نوازشریف کے بھائی خادم اعلی شہباز شریف اور کالم نگار عطاالحق قاسمی کی رائے اچھی تھی کہ علامتی عدالتی سزا دے کر جان چھڑائیں مگر اس مقدمے کے درپردہ امریکی تانے بانے کام کر رہے ہیں جو بالآخر کیا رنگ لائیں گے، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔