یمن بحران اسلامی دنیا میں عدم استحکام‘ انتشار کا باعث بن سکتا ہے۔ جلد سے جلد اقدامات کئے جائیں۔ یہ فرمان تھا ترکی کے صدر جناب اردگان کا اور انہوں نے مزید فرمایا کوئی ایک نظریہ کسی دوسرے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو مسلم امہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیگی۔ بطور مسلمان مختلف نظریات رکھے جا سکتے ہیں۔ انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ سعودی عرب جانے کو تیار ہوں۔ او آئی سی بھی کردار ادا کرے۔ سعودی عرب‘ ترکی‘ ایران مل کر سفارتی حل کی کوشش کریں۔
یہ تھے خیالات ترکی کے صدر کے۔ ہمارے وزیراعظم نوازشریف صاحب فرماتے ہیں کہ یمن بحران مسلم ممالک کیلئے خطرناک ہے، فوری حل نکالا جائے۔ ان خیالات کا اظہار ہمارے وزیراعظم نے ایرانی وزیرخارجہ محمدجواد ظریف کیساتھ ملاقات میں کیا۔ کیری صاحب امریکہ کے فارن منسٹر فرماتے ہیں ایران نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی تو امریکہ دیکھتا نہیں رہے گا، حوثیوں کیلئے ایران کی حمایت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ایرانی پروازیں آرہی ہیں‘ ہم نے ان کا سراغ لگایا۔ اتحادیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ پاکستانی پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن کی قراداد کیمطابق پاکستان یمن‘ سعودی عرب جنگ میں فریق نہیں بنے گا‘ لیکن اگر خانہ کعبہ یا روضہ رسول کو خطرہ ہوا تو پاکستان ہر قسم کی مدد کرےگا۔ اس قرارداد کی یو اے ای کے منسٹر نے دھمکی دی ہے کہ اسکے سنگین نتائج بھگتنے کیلئے پاکستان تیار رہے۔ چودھری نثار نے اس دھمکی کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کے خیال میں پاکستان کو غیرجانبدار رہ کر جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ میاں محمد نوازشریف کے ترکی کے دورے میں ترکی کے صدر سے مشاورت اور ایران کے منسٹر کا پاکستان آکر پاکستانی حکمرانوں سے مشورہ کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکرٹ ڈپلومیسی شروع ہو چکی ہے ۔ میاں نوازشریف انڈونیشیا‘ ملائشیا جانے کیلئے بھی پر تول رہے ہیں۔ ادھر ترکی کے صدر کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ ملائشیا‘ انڈونیشیا کا دورہ کریں۔ خواجہ آصف نے تو جلدبازی میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ دو چار دن کی بات ہے‘ جنگ میں سیزفائر ہو جائےگی۔ یہ ہے چیس بورڈ اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یمن سعودی عرب کشمکش خاصی پرانی ہے۔ امریکہ نے مسلم ممالک کے ریسورسز پر قبضہ کرنے کی کوششیں تو کرکے دیکھ لی ہے۔ عراق کی جنگ میں ماسوائے تیل پر قبضہ کرنے کے عراق کو تقسیم کرنے اور شیعہ سنی لڑائی کرانے میں امریکہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ لیبیا پر بھی تسلط نہیں کر سکا ماسوائے قذافی کو مروا دیا۔ لبنان میں بھی حزب اللہ سے شکست کھائی۔ مصر میں بھی ماسوائے حکومت بدلنے کے اور کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ افغانستان میں بھی ناکامی مقدر بنی۔ شام میں بھی ایسا ہی ہوا۔ اسکے بعد خیال تھا کہ امریکہ بہادر اب خاموشی سے اپنی اکانومی کو درست کریگا اور دوسرے ملکوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریگا‘ لیکن امریکہ خاموش تماشائی نہیں بنا۔ اب پالیسی جو بنائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کو آپس میں لڑا کر اسلحہ بھی بیچا جائے اور سعودی عرب اور گلف سٹیٹس کا جو پیسہ امریکہ میں جمع ہے اس کو بھی ہڑپ کیا جائے جس کی مالیت کھربوں میں ہے اور مسلمان ملکوں کو مذہبی تفرقوں میں تقسیم کرکے آپس میں لڑا کر کمزور کیا جائے۔ یہ غالباً نئی امریکی پالیسی ہے۔ امریکہ کی ایران کے ساتھ خاصی دشمنی چل رہی تھی‘ لیکن یکلخت ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے ہو رہے ہیں اور جو ایران کےخلاف پابندیاں لگائی گئی تھی وہ بھی ختم ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔ ادھر سعودی عرب کے ساتھ کچھ عرصہ سے تعلقات میں سردمہری پائی جاتی تھی۔ اب یکلخت اسکی مدد یمنی جنگ میں کرنے کیلئے بھی امریکہ تیار ہے۔میرے خیال میں لارنس آف عریبیہ کی رائے کو زندہ کرکے دوبارہ عالم اسلام کو آپس میں مذہبی تفرقہ بازی کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ حوثی کوئی خاص تعداد میں یمن میں نہیں ہیں‘ لیکن جو نقشہ بنایا جارہا ہے شیعہ کو ایران سعودی عریبیہ کےخلاف اسلحہ سے مدد کر رہا ہے۔ آغاز میں تو بات اتنی تھی کہ سابق حکمران ہادی نے معاہد ہ کیا تھا کہ وہ جمہوریت لائے گا جو نہیں لا سکا۔ اس کےخلاف حوثیوں نے جنگ جاری کی ہوئی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اس نے وعدہ خلافی کی ہے۔ عرب لیگ کے حکمران سب اکٹھے ہیں۔ انہیں کہا جا رہا ہے کہ اگر یمن میں جمہوری روایت قائم ہو گئی تو ساری مڈل ایسٹ Kingdom کو خطرہ لاحق ہوگا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشمکش کافی دیر سے چل رہی ہے۔ حزب اللہ حوثیوں کی طرف سے یمن میں لڑ رہی ہے۔ جو ایرانی اسلح اور امداد سے چل رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کیمطابق ایرانی اسلحہ سمندری جہازوں کے ذریعہ یمن کے باغیوں کو پہنچایا جا رہا ہے۔ سعودی عرب نے ایرانی جہازوں کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے بھی روک دیا ہے۔ امریکہ کی پالیسی بظاہر جو نظر آرہی ہے وہ اسلامی دنیا کو آپس میں مذہبی تفرقہ سے لڑا کر کمزور کرکے اسلامی ملکوں کی نئی حدبندی کرنا اور انکے وسائل پر قبضہ کرنا ہے۔ سعودی عرب کے وزیرصاحب جو پاکستان تشریف لائے ہیں۔ پاکستان سے سعودی عریبیہ کو توقع ہے کہ ہر قسم کی مدد سعودی عرب کو مہیا کریگا۔ ا س میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ سعودی عریبیہ نے پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں مدد کی۔ 1965ءاور 1971ءکی جنگ سے لیکرہرکرائسز میں سعودی عریبیہ نے پاکستان کی مدد کی۔ کبھی مفت تیل دیاگیا اور کبھی کم قیمت پر تیل دیا گیا ہے۔ جب فوجی حکومت نے میاں نوازشریف کو شکنجہ میں جکڑا تو سعودی حکومت نے میاں نوازشریف اور انکی فیملی کی جان بخشی کرائی اور مہمان بنا کر سعودی عرب رکھا۔
مڈل ایسٹ میں پاکستانی مزدور گیارہ ارب ڈالر کیremittance کے ذریعہ بھجواتے ہیں اور یورپ کیremittance تین یا چار ارب سے زیادہ نہیں۔ اگر پاکستان عرب لیگ کیساتھ یمن کی لڑائی میں ساتھ دیتا تو یو اے ای کے منسٹر کی دھمکی کے مطابق ان پاکستانیوں کو اگر نوکری سے فارغ کر دیا جائے تو 11 ارب ڈالر کیremittance سے پاکستان محروم ہو جائیگا اور مزدور نوکری سے محروم ہو جائینگے۔ اگر پاکستان سعودی عریبیہ کی جنگ میں فریق بنتا ہے تو ایران کیساتھ مخاصمت کی وجہ سے بھارت اور ایران مل کر بلوچستان میں تخریب کاری شروع کرا کر پاکستان میں ایسٹ پاکستان کے المیہ کے 1971ءجیسے حالات پیدا کر سکتے ہیں۔ دوسرے عالم اسلام کو مذہبی تفرقہ بازی کی جنگ میں جھونک کر عالم اسلام میں بھیانک نتائج نکلیں گے۔ امریکہ بہادرکی خواہش یہ ہے کہ ہر صورت عالم اسلام میں آپس میں لڑائی کرا کر اسلامی ملکوں کے ٹکڑے کئے جائیں۔ انکے وسائل پر قبضہ کیا جائے اور اسرائیل مسلمانوں کے ملکوں کو روندتا چلا جائے۔ بین الاقوامی حالات کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو پاکستانی پارلیمنٹ کا ریزولیوشن درست تھا‘ لیکن پاکستان کا دامن چھڑانا بھی اتنا آسان نہیں۔ ایک طرف سعودی حکومت کی توقعات پاکستان سے بہت زیادہ ہیں اور وہ یہ توقع نہیں کر سکتے کہ پاکستان سعودی عریبیہ اور مڈل ایسٹ Kingdom کو بے یارومددگار چھوڑ دیگا۔ اگر پاکستان انکا ساتھ نہیںدیتا تو پاکستان میں سعودی عرب کے حامی حلقے ہڑتالوں کا سلسلہ شروع کرا دینگے۔ ایران‘ بھارت سے مل کر بلوچستان میں تخریب کاری شروع کرا دینگے۔ پاکستانی فوج بھارت کے بارڈر‘ افغانستان کے بارڈر کے علاوہ دہشت گردوں کی بیخ کنی پر مامور ہے۔ اس کیلئے بیرون ملک جنگ میں حصہ لینا مشکل ہوگا اور اگر یہ رسک پاکستان نے لے لیا تو امریکہ بہادر آسانی سے سعودی عریبیہ جنگ سے نکل کر اسے پاکستانی جنگ کا نام دے دیگا۔اس صورت میں ایران دوسری طرف ہوگا جس کا نتیجہ عالم اسلام میں مذہبی جنگ تفرقہ بازی کی شروع ہو جائیگی جسکے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ پاکستان کے وزیراعظم کو چاہئے کہ ترکی کے صدر کے ساتھ مل کر ایران کے صدر‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا اور اسلامی کانفرنس کا اہتمام کریں ، عالم اسلام کی بقاءکا واسطہ دیکر اس جنگ کو ختم کر دیں۔ اس وقت یہ ایک چنگاری امریکہ نے تیل میں پھینکی ہے۔ پیشتر اسکے یہ بھانبڑ بن کر عالم اسلام کو تباہ و برباد کر دے‘ اس آگ کو ٹھنڈا کر دینا چاہئے۔ ایران کے وزیر اور ترکی کے صدر کی پاکستان میں آمد سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات کی سنگینی کا عالم اسلام کے حکمرانوں کو ادراک ہے اور انکی نیک نیتی کے ساتھ دخل اندازی سے سب عالم اسلام کو اس بھیانک صورت سے سرخرو کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ بارگاہِ ایزدی میں بھی استدعا ہے اس مشکل کی گھڑی میں مسلمانوں کو عقل دے کہ آپس میں نہ الجھیں اور اسلام میں تفرقہ بازی سے بازرہیں....
”اے خاصہ خاصان رُسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے