اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) پاکستان ا ور برطانیہ کے درمیان مطلوب مجرموں کی حوالگی، سیاسی و سفارتی وجوہ کے تحت ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ عمران فاروق قتل کیس میں ملوث افراد تک رسائی یا حوالگی میں برطانیہ کی دلچسپی کے حوالے سے دفتر خارجہ کے ایک سینئر افسر نے کہا برطانیہ کے ساتھ مطلوب افراد کے تبادلہ کے معاہدہ کیلئے کم از کم دو دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت چل رہی ہے۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار میں ایک موقع پر دکھائی دے رہا تھا یہ معاہدہ ہو جائیگا لیکن ایسا کوئی بھی معاہدہ برطانیہ کے مفاد میں نہیں۔ وہ اب تک بات چیت کو طول دیتا آیا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق برطانیہ کو بخوبی علم ہے ایسا کوئی معاہدہ طے پانے کی صورت میں یا مطلوب افراد کی حوالگی کے کسی دو طرفہ یا انفرادی لین دین میں پاکستان ان افراد کو طلب کریگا جنہیں برطانیہ نے خود اہتمام سے اپنے ہاں رکھا ہوا ہے اور انہیں برطانوی پاسپورٹ تک جاری کئے گئے ہیں۔ ایسے ہی مطلوب افراد میں بلوچ سردار خیر بخش مری کا ایک چھوٹا بیٹا مہران مری ہے جسے برطانیہ نے مہران بلوچ کے نام سے پاسپورٹ جاری کر رکھا ہے اور یہی مہران مری اقوام متحدہ سے لیکر یورپی یونین اور مغربی دنیا کے تھنک ٹینکس میں بلوچ بغاوت کے حق میں دلائل دیتا ہے اور بلوچ شورش کے حق میں سیاسی و سفارتی سطح پر جنگ لڑ رہا ہے۔ مہران بلوچ پاکستان کو انتہائی مطلوب ان افراد میںشامل ہے جو برطانیہ میں مقیم ہیں اور اسکی فراہم کردہ سفری دستاویزات پر نقل و حرکت کرتے ہیں۔پاکستان ٖ غیر رسمی انداز میں بارہا برطانیہ سے مہران بلوچ اور بلوچستان میں شورش کو فروغ دینے میں ملوث انکے بھائی حیر بیار مری سمیت متعدد دیگر افراد کی حوالگی اور انکی سرگرمیاں محدود کرنے کے مطالبات کرتا رہا جنہیں کبھی برطانیہ نے پذیرائی نہیں بخشی۔2007ء میں اسوقت کے صدر پرویز مشرف نے مہران بلوچ کو پاکستان لانے میں ذاتی دلچسپی لی انکی کوشش ناکام رہی۔ اب بھی مطلوب افراد کے تبادلہ کا معاملہ چلا تو پاکستان مہران بلوچ سمیت بلوچ علیحدگی پسندوں کو طلب کریگا۔