پانامہ لیکس: حکومتی ارکان محض صفائی پیش کرتے رہے

قومی اسمبلی کا اجلاس آٹھ روز جاری رہنے کے بعد جمعہ کو غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یہ اجلاس جمعرات7اپریل کو شروع ہوا تھا اس دوران پیر 11اپریل کو ایک روز پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی ہوا جس وجہ سے اس سیشن میں صرف سات نشستیں ہوئیں۔ مشترکہ اجلاس میں پی آئی اے کو لمیٹڈ کمپنی بنانے سمیت چار بل اتفاق رائے سے منظور ہوئے تھے جبکہ قومی اسمبلی سے سائبر کرائمز بل 2016ء سمیت متعدد بل منظور ہوئے تاہم اس سیشن میں سب سے اہم ایشو پانامہ لیکس پر تحریک التواء تھی۔ پا کستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے اس حوالے سے تحاریک التواء جمع کرائی تھیں۔ اور ان کی تحاریک پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو قواعد و ضوابط معطل کرکے اس پر بحث کرانی پڑی۔ یہ سیشن اس لحاظ سے بھی بڑا اہم رہا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی ایک طویل عرصے کے بعد اجلاس میں شریک ہوئے۔ پانامہ لیکس پر اپوزیشن ارکان نے حکومت اور وزیر اعظم کوکڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ حکومتی وزراء اور ان کے ارکان محض صفٖائی ہی پیش کرتے رہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال تھا کہ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جس جوڈیشل کمیشن کا ذکر کیا اس کی تشکیل میں بھی دس روز گذر جانے کے باوجود یہ کمیشن تشکیل نہ پانے سے بھی حکومت کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ اگر کمیشن فوراً تشکیل دے دیا جاتا تو اپوزیشن کے پاس تنقید کا کوئی جواز باقی نہ رہتا۔وزیر اعظم کی اسلام آباد میں نہ ہونے اور پھر لندن جانے پر بھی دارالحکومت میں کئی چہ مگوئیاں ہوئیںاور ان چہ مگوئیوں میں اس وقت کمی آئی جب وزیر اعظم نے لندن پہنچ کر میڈیا سے بات چیت کی۔ پانامہ لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے اگرسپیکر ازخود ایک پارلیمانی کمیٹی بھی تشکیل دے دیتے تو جہاں اس کی تحقیقات ارکان پارلیمنٹ کے باعث اطمینان بنتیں وہاں جوڈیشل کمیشن کیلئے بڑی مددگار ثابت ہوتیں ۔جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں آفتاب احمد خان شیر پائو نے جب یہ کہا کہ میں نے گذشتہ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جو تعریف کی تھی وہ میں واپس لیتا ہوں کیونکہ انہوں نے اس سال کے پی کو فنڈ دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا نہیں کیا جس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار فوراً اٹھے اور کہا کہ کے پی کے کو فنڈ دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ ضرور پورا کروں گا۔ یہ رقم وزارت پانی و بجلی نے دینا ہے۔ جمعہ کو سینیٹ کا اجلاس بھی ہوا۔ جس میں پانامہ لیکس پر بحث شروع ہوگئی ہے بحث کا آغاز مسلم لیگ (ق) کے رہنما و سنیٹر مشاہد حسین سید نے کیا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر چوہدری تنویر خان، پی پی پی پی کی سینیٹر شیری رحمان، پی ٹی آئی کے سنیٹر نعمان وزیر خٹک نے اظہار خیال کیا۔ اپوزیشن کے سینیٹرز کا مطالبہ تھا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات سینیٹ کی اخلاقیات کمیٹی کے سپرد کی جائیں اور اس کمیٹی میں نیب ، ایف آئی اے اور سٹیٹ بینک کی بھی نمائندگی ہو حکومت الیکشن کمیشن کے لیے قانون سازی کرے جس میںاب آف شور اکائونٹس کی تفصیلات بارے بیان حلفی بھی لیاجائے ۔آف شور اکائونٹس کے سورس کی ضرور تحقیقات ہونی چاہیے پانامہ لیکس بین الااقوامی سرمائے کا بحران ہے جس نے دنیاکے متعدد حکمرانوں اور ایوان پر سوالیہ نشان کھڑے کردئیے ہیںپیپلزپارٹی پر سوموٹو کی تلوار لٹکتی تھی اب یہ کسی پر بھی نہیں گرتی ڈیوڈ کیمبرون اگر پارلیمنٹ کو جواب دے رہاہے تو وزیر اعظم بھی ایوان میں آکر جواب دیں یہ پاکستان کی تاریخ کا فیصلہ کن مرحلہ ہے قوم کو کرپشن کے خلاف کھڑے ہوجانا چاہیے کرپٹ سیاستدانوں کو اب گھروں تک چھوڑ کرا ٓئیں گے۔ مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید وہ واحد پارلیمنٹیرین ہیں جنہوں نے ایوان کو پانامہ لیکس کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کیا۔ جس کے مطابق پانامہ لیکس دراصل پانامہ میں رجسٹرڈ کمپنیوں کی چوری ہونیو الی معلومات ہیں پانامہ سمیت دیگر ملکوں میں آف شورکمپنیاں رجسٹرڈ ہوتی ہیں اس وقت صرف پانامہ 2لاکھ 14ہزار کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جن میں 76ملکوں کی 220شخصیات کے 21کھر ب ڈالر کا سرمایہ موجود ہے جن پر اگر صرف ٹیکس وصول کیاجائے تو 3ارب ڈالر بنتاہے ان کمپنیوں کے اکاونٹس 143سیاسی شخصیات ہیں جن میں وزیر اعظم کے صاحبزادوں ، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ،دو پارلیمنٹرین کے علاوہ ججز بھی شامل ہیں یہ ایک بین الااقوامی معاملہ ہے کسی پارٹی کے خلاف سازش ہرگز نہیں ہے آئس لینڈ کے وزیر اعظم اور سپین کو وزیر کو اس وجہ سے استعفی دینا پڑاہے کیونکہ ان کا نام ان اکائونٹس میں تھا جبکہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمبرون کو اپنے والد کے اکائونٹس کی بدولت وضاحت کرنا پڑی انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ وہ سوئس بینکس میں موجود پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر ہیں جو وہ واپس لانے کا بھی اعلان کرچکے ہیں تاہم ہم نے سوئس سفیر سے بابت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی تک حکومت پاکستان نے اس ضمن میں کوئی باضابطہ درخواست نہیں کی ہے انہوں نے کہا کہ اس معاملہ پر سیاست نہ کی جائے۔ اس کے جواب میں ذاتی وضاحت کے نکتہ پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہحکومت نے سوئس اکائونٹس میں پاکستانیوں کی رقوم تک رسائی کے لیے سوئس حکام سے باضابطہ بات چیت شروع کردی ہے کابینہ کی منظور ی کے بعد ایف بی آر کو بات چیت کا اختیار دیا گیا ہے سوئس اکائونٹس میں دو ڈالر یا دو سو ارب ہوں وہ قوم کی امانت ہیں اس معاملے کی طے تک پہنچنے کے لئے اپوزیشن کی طرف سے تعاون کا بھی خیرمقدم کریں گے۔ پی پی پی پی کے سنیٹر فرحت اللہ بابر ، سنیٹر سعید غنی ، اور پی ٹی آئی کے سنیٹر اعظم خان سواتی نے نکتہ ہائے اعتراضات پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ عسکری ادارے دانستہ طورپر ٹرانسپرنسی اور احتساب کو نظرا نداز کررہے ہیں یہ ادارے پارلیمان کو جواب دینا نہیں چاہتے جی ایچ کیو میں چند لوگ ہیں جنہوں نے ذہن بنا رکھا ہے کہ پارلیمان نام کی کوئی چیز نہیں ہے بحریہ ٹاون کا نیوی سے کوئی تعلق نہیں بحریہ کا نام ماضی میں ایک نیول چیف نے دیا جس کی تحقیقات کی گئیں ۔ نیوی حکام سے بحریہ فاونڈیشن کا سوال کیا گیا انہوں نے بحریہ ٹاون کی وضاحت کردی تاہم اپنے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دینا مناسب نہیں جانا گیا ۔ جمعہ کو پارلیمنٹ ہائو س کے کیفے ٹیریا میں خوب رونق لگی رہی۔ قائم مقام صدر میاں رضا ربانی ، سینیٹر شاہی سید کے ہمراہ جب کیفے ٹیریا آئے تو انہوں نے فرداً فرداً تمام صحافیوں سے ہاتھ ملایا اور ان کی خیریت دریافت کی۔ قائم مقام صدر نے وہاں خھان بھی تناول کیا اور اس کی تعریف کی اس دوران دیگر سینیٹرز بھی ان کے ہمراہ کھانے میں شریک ہو گئے۔ مسلم لیگ ( ن) کی خواتین سینیٹرز نجمہ حمید، کلثوم پروین اور روبینہ خالد بھی وہاں آئیں تو میاں رجا ربانی نے انہیں بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا۔ جمعہ کو قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے طلبہ و طالبات نے ارلیمنٹ کا دورہ کیا وہ اس دوران کیفے ٹییریا آئے تو انہوںنے وہاں قائم مقام صدر میاں رضا ربانی، ایم کیو ایم کے رہنما داکٹر فاروق ستار اور عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد کے ساتھ سیلفیاں اور گروپ فوٹو بھی بنوائیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار سمیت دیگر سیاستدانوں سے طلباء و طالبات نے متعدد سوالات بھی کئے جن کا انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ جواب دیا۔ سینیٹ کا اجلاس پیر کی شام ساڑھے تین بجے تک ملتوی کیا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...