میں کئی دنوں سے غیر حاضر رہا ہوں جس کے لئے اپنے قارئین سے معذرت چاہتا ہوں مگر میں اپنی مصروفیات کا ذکر کروں گا تو کئی دل دلوں کی دنیا میں پہنچ جائیں گے۔ اچانک مجھے مہربان اور محترم دوست علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے کربلائے معلیٰ نجف اشرف اور بغداد شریف جانے کی دعوت دی۔ برادرم نذیر غازی مذاق میں اور احترام میں علامہ اکبر صاحب کو کبھی آیت اللہ اور حجت الاسلام کہہ دیتے تھے۔ علامہ صاحب انکار نہ کرتے تھے اور اقرار بھی نہ کرتے تھے؟ ۔ ہم فوراً تیار ہو گئے کہ وہاں حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ اور مولانا علی علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری کا موقع ملے گا۔ وہاں جا کے حاضری حضوری بن گئی۔ میں نے برادرم محترم المقام سیدی ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کے والد مرحوم ولی اللہ محمد فاضل شاہ کے عرس کے موقعے پر پیر سید کبیر علی شاہ کی موجودگی میں سادات کے ’’آستانے پر حاضری کے لئے حضوری کا لفظ استعمال کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ یہاں میں نے گفتگو کا شرف بھی حاصل کیا اور آل رسولﷺ اور اہل بیت رضوان اللہ اجمعین کے غلاموں کے خاک پا ہونے پر فخر کا اظہار کیا تھا۔ آلِ رسولؐ کی محبت صدیوں سے میرے قبیلے کی روایت کی حکایت بن چکی ہے۔ یہاں بھائی پیر بھائی عارف سیالوی بھی موجود تھے۔ زیارتوں کے دیس میں قبلہ غلام محمد سیالوی بھی ساتھ تھے۔ وہ پیر بھائی ہیں اور میانوالی کے ہیں۔ ان سے کئی رابطے نکل آئے۔
کربلا کے پہلے پڑائو میں نذیر غازی، پیر حبیب عرفانی، برادرم بلال قطب، پاکستان قرآن بورڈ کے چیئرمین غلام محمد سیالوی، پیر حفیظ برکات، شہزادہ محمد علی زنجانی، رائو شاہد اور عبید شاہ بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ پورے وفد میں دو آدمیوں کے علاوہ سب اہل سنت والجماعت تھے کربلا میں تقریباً سب لوگ شیعہ تھے۔ نجف اشرف میں کچھ کم تھے مگر بغداد میں اکثریت سنیوں کی ہے۔
کربلا نجف اشرف میں شیعہ سنی کی کوئی تفریق نہیں ہے۔ کربلا اور نجف میں شاید صرف ہم چند لوگ تھے چند لوگ اور ہوں گے جو نماز کے دوران ہاتھ باندھ کے نماز پڑھ رہے تھے ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے سب لوگوں نے ہاتھ چھوڑے ہوئے تھے مگر نہ ہم نے محسوس کیا نہ کسی دوسرے نے خیال کیا۔ یہ یگانگت یہ یکجہتی اگر عالم اسلام کے سب مسلمانوں میں پیدا ہو جائے تو کمال ہو جائے۔
کربلا میں برادرم نذیر غازی اور مجھے مدینہ منورہ یاد آیا۔ ہر طرف درود شریف کی آوازیں بلند آواز میں گونجتی تھیں۔ صلواۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم و آل محمدؐ۔ الھم صلی اللہ محمدؐ و آل محمدؐ۔ میں نے ایک کربلائی دوست سے پوچھ لیا کہ آل محمدؐ تو سب امت مسلمہ ہے۔ اس نے بیزاری کا کوئی تاثر نہیں دیا۔ صرف کشادگی اور بذلہ سنجی سے مسکرا کر جواب دیا۔ جناب یہ عربی والا آل ہے انگریزی والا ALLنہیں ہے اور میں ہنس دیا اس کی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اگر اس دائرے میں ساری امت مسلمہ کو شریک کر لیا جائے تو ہم سب کو فائدہ ہو گا اور اتحاد بین المسلمین کا تصور دور تک جائے گا اور دیر تک پھیلے گا۔ کربلا میں بھی برکت اور تاثیر مدینہ منورہ سے آئی ہے۔ دنیا بھر کے شہیدوں کے سردار۔ اماموں کے امام حضرت حسین علیہ السلام نواسہ رسولؐ ہیں۔ امام حسینؑ مدینہ منورہ سے چلے تھے۔ مکہ مکرمہ سے ہو کے آئے۔ انہیں راستے میں نجف اشرف کی ہوا بھی محسوس ہوئی۔ پھر وہ کربلائے معلیٰ میں آ گئے کربلا اور نجف میں سب لوگ صرف ایک ہی ورد بلند آواز میں کرتے ہیں۔ الھم صلی اللہ محمدؐ علیٰ آل محمدؐ تو مدینہ کربلا اور نجف ایک ہی آواز کے تین راز ہیں تو پھر علامہ اقبال نے سچ کہا ہے اپنے دل کی بات کہی ہے اور ہم سب کے دل کی بات کہی ہے۔
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
میں نے کربلائے معلیٰ اور نجف اشرف میں مدینے کی ہوا چلتی ہوئی محسوس کی اور ہم بغداد میں پہنچے حضرت غوث اعظم امام ابوحنیفہ کے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔ یہاں علامہ ڈاکٹر سید محمد حسین اکبر اور شہزادہ محمد علی زنجانی کا قطعاً پتہ نہیں چلا کہ وہ اہل تشیع میں سے ہیں۔ وہ دونوں پیر حبیب عرفانی اور راقم الحروف امام ابوحنیفہ کی قبر پر اکٹھے بیٹھے تھے۔ بلال قطب نے اپنے ٹی وی چینل کے لئے انٹرویو کیا۔ تمام لوگوں نے ایک جیسی بات کی۔ علامہ اکبر کی بات اپنے دل کی ترجمان تھی مگر اس میں ہمارے دل کی ترجمانی بھی تھی۔ پیر حبیب عرفانی کی بات میں تاثیر اور تاثر بہت اعلیٰ تھا۔ بلال قطب نے ریکارڈنگ کے دوران بہت داد و تحسین لی۔ امام ابوحنیفہ امام جعفر صادق کے شاگرد تھے۔ پھر شاگرد نے اپنے استاد سے اختلاف کیا۔ اس اختلاف کا زیادہ لوگوں نے اعتراف کیا۔ امام ابوحنیفہ کے پیروکار امام جعفر صادق سے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں مگر ہم امام جعفر صادق کی عظمت اور بڑائی کے قائل ہیں جبکہ ہم امام ابوحنیفہ کے ماننے والے ہیں۔
نجف اشرف حضرت علی علیہ السلام کے مرقد کی شان سے بنا ہے۔ ہم ان کے مرقد کی جالیوں کو چھونے کی سعادت سے بآسانی کامیاب ہو گئے۔ جبکہ ہجوم یہاں بھی زیادہ تھا۔ کربلا میں امام حسین کے مرقد کی جالیوں سے اپنے ہاتھ مس کرنے کی حسرت بھی پوری ہو گئی مگر اس کے لئے ہمیں کئی چکر یہاں کے لگانے پڑے۔
نجف اشرف کے ساتھ کچھ دور مسجد کوفہ کی شان و شوکت دیکھنے والی تھی۔ اس کے ساتھ ہی امیرالمومنین خلیفتہ الرسولؐ امام حضرت علی علیہ السلام کا گھر بھی ہے۔ اتنے بڑے حکمران کا گھر دیکھ کر مجھے اپنے گھر میں آ کے شرم آئی۔ میں ان سب باتوں کی تفصیل بیان کروں گا۔ اب تو صرف اپنی غیر حاضری اور حاضری کے درمیان ایک نامعلوم سی کیفیت کے کیف میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف