اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) وفاقی وزیر داخلہ نثار علی خان نے کہا کہ پاکستانی پاسپورٹ کے غلط استعمال کی شکایتیں آئی ہیں، غیرملکی خاتون کو پاکستان میں شادی پر پہلے مرحلے میں ایک سال کا ویزہ ملے گا۔ وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ پاکستانی اوریجن کارڈ کے اجراءکا دوبارہ جائزہ لیا جائیگا، اوریجن کارڈ کا نام بھی اب عارضی رہائشی کارڈ رکھا گیا ہے۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ 10 سال سے این جی اوز بغیر رجسٹریشن کے کام کر رہی تھیں، اب انٹرنیشنل این جی اوز کو ایک ضابطہ کار کے اندر کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ویزے ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے تھے، سکیورٹی کلیئرنس کے بغیر ویزے جاری کئے جاتے تھے، 3 سال میں ویزوں کے حوالے سے بہت سے اقدامات کئے ہیں، اب کوئی بغیر دستاویزات کے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ 62 این جی اوز کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اب کوئی بھی منہ اٹھا کر پاکستان نہیں آتا، آئندہ کسی کو لینڈنگ کارڈ کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خانانی اینڈ کالیا منی لانڈرنگ کیس 2008ءکا کیس ہے، اس کیس پر کچھ اور نہ کہلوائیں، توہین عدالت نہ لگ جائے، خانانی اینڈ کالیا کیس کی نئی انکوائری شروع کی گئی، اس کیس میں ریکارڈ نظرانداز کیا گیا یا تباہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کیس میں بیوروکریٹ، بزنس مین اور سیاست دان بھی شامل ہیں،2005 سے2008 کے دوران 103ارب روپے باہر بھیجے گئے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ منی لانڈرنگ میں نجی بینک بھی ملوث ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کیس کی انویسٹی گیشن کرنے والے آفیسر سے بھی تحقیقات ہوں گی، یو اے ای، امریکہ اور برطانیہ کو بھی خط لکھ دیئے ہیں، جو بھی مواد ہے اسے ایکٹیویٹ کریں گے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ شناختی کارڈوں کے مسئلے کو سیاسی بنا دیا گیا ہے، شناختی کارڈز کا مسئلہ پنجابی یا پختون کا نہیں، پاکستان کا مسئلہ ہے، پاکستان میں بارہ سے چودہ سالوں میں نیشنیلٹی کو ریوڑیوں کے حساب سے بیچا گیا، چند ہزار کے تحت نیشنیلٹی بیچی گئی۔ چودھری نثار کا مزید کہنا تھا کہ حساس مسائل پر سیاست نہ کی جائے، جو لوگ اسے سیاسی اور اینٹی پشتون بنا رہے ہیں ان پر افسوس ہے، کیا آپ نے قومی ایشوز پر قوم کو تفریق کرنا ہے یا جوڑنا ہے؟ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پشتون پاکستان کا ایک ستون ہیں، انہیں ہر جگہ خوش آمدید کہتے ہیں۔ چودھری نثار نے مزید کہا کہ ایک لاکھ 25 ہزار نان پشتونوں کے کارڈز بھی بلاک کئے گئے ہیں، 25 ہزار پاسپورٹس کینسل کئے، 32 ہزار 440 افغانوں کے کارڈز تھے، پریشر ڈالنے پر لوگوں نے 3 ہزار 640 شناختی کارڈ ازخود واپس کئے۔ وزیر داخلہ نے استفسار کیا کہ سیاست کی خاطر کیوں نفرت پھیلاتے ہیں؟ انہوں نے اپیل کی کہ سیاسی مقاصد کی خاطر نفرتیں نہ پھیلائی جائیں۔ وزیر داخلہ نے نام لئے بغیر پرویز خٹک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایک وزیراعلیٰ لاک ڈاو¿ن کرنے آئے تھے، پولیس نے ہاتھ نہیں لگایا پھر بھی کہا گیا کہ پشتونوں کو روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ غیرملکیوں کو شناختی کارڈز کا اجراء جرم ہے، جعلی شناختی کارڈ پر کوئی سپیس نہیں دوں گا۔ وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کئی سینئر رہنما آ کر ملے ان کی بات سنی، جعلی شناختی کارڈز پر پارلیمانی کمیٹی بنا دی ہے مگر پھر بھی بلاجواز پروپیگنڈے سے صوبوں میں نفرت پھیلانے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ چودھری نثار نے واضح کیا کہ جعلی شناختی کارڈ کو روکنا قومی ذمہ داری ہے، 1978ءسے پہلے کا قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ تسلیم کر لیں گے۔ ڈان لیکس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ پر اتفاق ہو گیا ہے، رپورٹ دو، تین دن میں وزرات داخلہ کو مل جائے گی، رپورٹ ملنے کے بعد وزیر اعظم کو پہنچا دوں گا، دو، چار دنوں میں میڈیا کو تسلی بھی ہو جائے گی۔ کرنل ظاہر کے اغواءکے حوالے سے وزیر داخلہ نے کہا کہ اغواء کے کیس میں وہی ہوا جس کا شک ظاہر کیا تھا، بدقسمتی سے تیسرے ملک کی سرزمین استعمال کی گئی، نیپال پاکستان کیساتھ تعاون کر رہا ہے، کرنل ظاہر کا کیس منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ایک شخص کو دھوکہ دے کر اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا گیا، تمام ادارے کوارڈینیشن کیساتھ کام کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ اسلام آباد سے اٹھائے گئے شخص کے بارے میں کچھ شواہد ملے ہیں، پولیس اسے جلد عدالت میں پیش کرے گی، سندھ حکومت وفاقی حکومت سے جو مدد مانگے گی دیں گے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پی پی دور میں شہریت ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئی۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اٹھانا گورنمنٹ کی پالیسی نہیں، پیپلز پارٹی کو کانٹا بھی چبھ جائے تو ذمہ داری وزارت داخلہ پر ڈال دی جاتی ہے، پیپلز پارٹی کی ہر بات کا جواب نہیں دے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں کیا ہو رہا ہے، یہ وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری ہے، لوگوں کا غائب ہونا خلاف قانون ہے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ خانانی اینڈ کالیا کیس میں ایف آئی اے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ملی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر عاصم، ایان علی، مشرف کو ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلے کس نے کیا؟ عدالت کے فیصلوں کو ڈیل کا نتیجہ قرار دینا بڑی زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس غیب کا علم نہیں جو زرداری کے لاپتہ ساتھیوں کا علم ہو، لوگوں کو اٹھانا حکومتی پالیسی نہیں، سندھ سے لاپتہ افراد سے متعلق وزیراعلیٰ سے پوچھا جائے۔ لوگوں کا غائب ہونا خلاف قانون ہے، اسکی اجازت نہیں دی جا سکتی، پہلے بلاگرز اور اب پھر ان 3 افراد کا واقعہ، کسی صورت قابل قبول نہیں، اسلام آباد سے اٹھائے گئے شخص پر تحقیق کی ہے اور کچھ شواہد بھی ملے ہیں۔ خانانی کالیا کیس میں تفتیش کرنے والوں کو گرفتار کرنا پڑا تو کریں گے، ایف آئی اے سے معاملہ شروع ہو گا، امریکہ، عرب امارات اور برطانیہ سے معاونت بھی لیں گے۔ ایف آئی اے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ملی ہوئی تھی۔ انٹرنیٹ پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ گستاخانہ مواد والی بہت ساری پوسٹس مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہم دو تین ماہ میں ایسی ایک میٹنگ بلا رہے ہیں۔ فیس بک کے نائب صدر بھی اگلے ماہ پاکستان آ رہے ہیں، انہوں نے 80 سے زائد پوسٹس ہٹا دی ہیں۔
نثار