حلب +واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ +آن لائن+بی بی سی) شام کے شہر حلب میں خودکش کار بم دھماکہ میں 100 افراد ہلاک جبکہ 130 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں جن میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دریں اثنا امریکہ کی مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے سربراہ‘ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ شام کے شہر ادلب میں گذشتہ ہفتے الشعیرات فوجی اڈے پر کیا میزائل حملہ ایران کے لیے سبق ہے۔ موجودہ امریکی حکومت ماضی کی حکومتوں کے برعکس تہران کے حوالے سے ایک نئی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ انٹرنیشنل سٹرٹیجک سٹڈیز سینٹر میں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مائیک پومپیو نے کہا ایران کے متنازع جوہری پروگرام پرطے پائے معاہدے سے متعلق ایران کی طرف سے عمل درآمد بارے کوئی بات کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ بہتر ہے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک رپورٹ پیش کروں اور وہ خود ہی کوئی فیصلہ کریںکہ ’ہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایرانی جوہری پروگرام بارے معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ مائیک پومپیو نے کہا شام میں مبینہ کیمیائی حملے کے بعد ہمیں ایران کے جوہری پروگرام پر طے پائے معاہدے پربھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایران کے یورینیم افزودگی کے اعلانیہ اور خفیہ مراکز کا علم ہونا چاہئے۔ انخلا کرنیوالے شہریوں کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ دھماکہ مغربی علاقے راشدین میں ہوا، ریاستی ٹی وی کے مطابق دہشت گرد گروپ ہوتے ہیں۔ بم ایک گاڑی میں تھا جس سے پناہ گزینوں کو لے جانیوالی بسوں کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ مرنیوالوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ بم دھماکے کی وجہ سے متعدد بسوں اور گاڑیوں میں آگ لگ گئی اور سڑک پر مرنے والوں کی نعشیں بکھر گئیں۔ یہ واقعہ باغیوں کے زیرانتظام علاقے راشدین میں پیش آیا۔ روسی فوجی باغیوں کے حامی پناہ گزینوں کی حفاظت کیلئے علاقے میں داخل ہو گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق ایک خودکش حملہ آور وین چلاتے ہوئے بسوں کے نزدیک جا کر پھٹ گیا۔ ایک عینی شاہد نے واقعہ کا نقشہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ ہر طرف نعشیں بکھری ہوئی ہیں‘‘ حلب میں موجود اے ایف پی کے ایک نمائندہ نے بتایا کہ پناہ گزینوں کو لے جانیوالی بسیں گزشتہ 40 گھنٹوں سے نہیں ہلی تھیں جبکہ شام کی ہلال احمر تنظیم انتظار کرتے ہوئے مسافروں کے کھانے پینے کے انتظام میں مدد کر رہی تھی۔ مدایا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں نے ایک بیان میں عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔