آپ اسے میری قومی دیوانگی‘ عشق وطن یا پھر قومی اداروں کے روز افزوں گرتے وقار کی ازسرنو بحالی کی جدوجہد کا نام دے لیں کہ اپنی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور ریلوے کے سالہا سال سے جاری بھاری خساروں کے بارے میں جب بھی کوئی اطلاع مجھے موصول ہوتی ہے تو رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے....؟
اکثر سوچتا ہوں عوام تو ہیں ہی بیچارے۔ مگر وہ حکمران جنہوں نے ملک اور غریب کی حالت بدلنے کا حلف اٹھا رکھا ہے کیا اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ اداروں کی ساکھ بحال کرنا اور انہیں منافع بخش بنانا ان کے بس میں نہیں رہا؟ اداروں کی اصلاح اور ان کا استحکام حکومت کا اولین بنیادی فرض ہوتا ہے مگر افسوس ہمارے حکمران یہ قومی فریضہ نبھا نہیں پائے۔
پی آئی اے اور ریلوے کی اصلاح کا رونا متعدد بار پہلے بھی رو چکا ہوں مگر معاملہ اب تک ”ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے“ تک ہی محدود رہا۔ ریلوے کے 336 ناکارہ انجنوں اور اپنی طبعی عمر پوری کرنے والے بیشتر ریلوے پلوں سے صبح و شام گزرنے والی ٹرینوں کے کسی بھی متوقع حادثے کی دہائی لندن میں وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے ایک ملاقات کے دوران بھی دی مگر جواب وہی ملا جو بالعموم وزیر بیچارے عوام کو دیا کرتے ہیں۔
پی آئی اے جس کا شمار ایک دور میں ”باکمال لوگوں کی لاجواب سروس“ کے حوالہ سے دنیا کی صف اول کی فضائی کمپنیوں میں ہوا کرتا تھا آج جس شرمناک خسارے سے دوچار ہے اس پر جس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔ اس غم نے ایک بار پھر رونے پر مجبور کیا ہے مگر اس مرتبہ مجھے قوی امید ہے کہ میرا یہ قومی رونا رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس خوش فہمی کی بنیادی وجہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے وہ دلیرانہ سپیڈی فیصلے اور ازخود نوٹسز ہیں جنہوں نے ”بابا رحمتے“ کے روپ میں انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ پی آئی اے کا نقصان کرنے والے درحقیقت ملک کے دشمن ہیں‘ اداروں اور محکموں کو فوراً درست کرنے کا عکاس ہے۔ 45 ارب روپے کے سالانہ نقصان سے چلنے والی پی آئی اے کو جسے روزانہ کی بنیاد پر 13 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور جو مبینہ طور پر 480 ارب روپے کی مقروض ہو چکی ہے۔ جناب چیف جسٹس نے یہ حکم دیا ہے کہ اپنے آخری 10 سالوں کی ائرلائن اپنی آڈٹ رپورٹ پیش کرے اور وہ مینجنگ ڈائریکٹرز جنہوں نے اس دوران اس ذمہ دار عہدے پر کام کیا عدالت میں حاضر ہوں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی سامنے لایا جا سکے۔
چیف جسٹس صاحب نے بلاشبہ پوری قوم پر یہ ایک بہت بڑا احسان کیا ہے جس سے اب یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ پی آئی اے کا عرصہ دراز سے کھویا وقار دوبارہ جلد بحال ہو جائے گا۔ برطانوی پاکستانی دعائیں دے رہے ہیں۔ جناب چیف جسٹس کو جنہوں نے اپنے حالیہ ریمارکس میں یہ واضح کر دیا کہ پی آئی اے کا حقیقی بیڑہ غرق کرنے والے وہ مینجنگ ڈائریکٹرز ہیں جو بھاری معاوضہ اور مراعات تو حاصل کرتے رہے مگر قومی ائرلائن کی کارکردگی کو بہتر نہ بنا سکے۔ اب حساب دینا ہو گا ایسے تمام MD's اور CO's کو جن کی بیڑہ غرق پالیسی نے پی آئی اے کو 360 ارب روپے کے خسارے سے دوچار کیا‘ اس بھاری نقصان کے ذمہ داران اور سہولت کاروں کا بھی کھوج لگایا جائے گا۔
جناب چیف جسٹس کے Speedy فیصلوں نے دنیا بھر میں چونکہ دھوم مچا دی ہے اس لئے میں بھی یہ چاہتا ہوں کہ اپنی قومی ائرلائن کے تناظر میں ایک برطانوی پاکستانی ہونے کے ناطے ان کی توجہ کے لئے چند گزارشات پیش کروں۔
جناب چیف جسٹس صاحب! ہر وہ محب وطن پاکستانی جو ملک کے اندر یا ملک سے باہر بسلسلہ روزگار مقیم ہے پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی حالات کے بارے میں سخت فکرمند ہے۔ وطن عزیز سے رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ پی آئی اے ہی تھا جس پر ایک دور میں پاکستانی ہی نہیں غیر ملکی بھی سفر کرنا اعزاز تصور کیا کرتے تھے مگر افسوس صد افسوس کہ ائرلائن کے بعض خودغرض ”بڑے صابوں“ نے اپنی ہی طرح کے وزیروں اور سیاستدانوں سے مل کر قوم کو اس اعزاز سے بھی محروم کر دیا۔ انہی کالموں میں میں نے بھی متعدد بار آنسو بہائے مگر جس گھر کو گھر کے ہی چراغ سے آگ لگائی ہو ایسے چراغ کو پانی سے بجھانے کا کیا فائدہ۔
پی آئی اے کی بربادی اور اس کا بیڑہ غرق ہونے کی داستان کافی طویل ہے۔ اللہ تعالیٰ عمر خضر عطا فرمائے جناب چیف جسٹس اور ان کی ٹیم کو جنہوں نے سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے ایسے مسئلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایسے احکامات جاری کئے ہیں جس کی ماضی میں شاید ہی مثال ملتی ہو۔ مجھے ان کی مدح سرائی کرنا قطعی مقصود نہیں مگر حقیقت کو نظرانداز کرنا بھی ایسا عمل ہے جو گناہ کبیرہ سے کم نہیں مگر جو ”کام“ یہ کرنے جا رہے ہیں یہ ان حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کا تھا، جنہیں ”بیچارے عوام“ اپنا مسیحا تصور کرتے رہے مگر افسوس قومی ائرلائن اور قومی ریلوے کے خساروں کا کسی وزیر مشیر نے نوٹس نہ لیا۔ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کے گزشتہ دور حکومت میں پی آئی اے کی بہتری کے لئے بعض فوری اقدامات کا اعلان تو کیا گیا مگر افسوس یہ اعلان اعلان تک ہی محدود رہا۔ تاہم پی آئی اے کے لندن روٹ میں پریمئر کلاس متعارف کروانے کے ٹھیک 6 ماہ بعد یہ داغ مفارقت دے گئی اور یوں پی آئی اے کو پھر سے 3 ارب روپے کے بھاری خسارے سے دوچار ہونا پڑا۔ اس نقصان کا ذمہ دار کون؟ آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔
جناب چیف جسٹس صاحب! 2002ءمیں پی آئی اے کو ہونے والے 52 ملین ڈالرز کے بھاری نقصان اور پھر 2013ءمیں خسارے پہ خسارے کے پس پردہ عوامل کیا تھے معلوم نہیں ہو سکا۔ اس طرح سٹیشن منیجروں کو غیر ممالک تعینات کرنے کا بنیادی CRITERIA آج تک عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ پی آئی اے کے 55 طیاروں کے FLEET میں صرف 18 جہاز باقی رہ گئے ہیں جن میں 16 آپریشنل تھے جبکہ 4 برسوں میں یہ تعداد 36 ہو گئی مگر 55 طیاروں کی دیکھ بھال اور مینٹیننس کرنے والا عملہ جس کی تعداد 27 ہزار تھی 24 طیاروں کی دیکھ بھال پر خدمات سرانجام دیتا رہا۔ کم طیاروں پر اضافی عملے کی تعداد کا کیا انتظامیہ نے نوٹس لیا۔ جناب میاں ثاقب نثار صاحب! پی آئی اے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حال ہی میں طیاروں کی New Livery کے حوالہ سے کسی قومی جانور ”مارخور“ کے LOGO سے یہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے کہ قومی ائرلائن کو جدید تقاضوں اور نئے قومی نشان سے دنیا کی ترقی یافتہ ائرلائنز میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ”مارخور“ کے بارے میں سمندر پار مقیم پاکستانیوں کو سرے سے معلومات ہی نہیں کہ اس جانور کو کب سے قومی قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے لوگو اور "NEW CORPORATE LOOK" پر فی طیارہ کتنے ارب روپے لاگت آئی قوم جاننا چاہتی ہے؟