ہمارے ملک میں کرپشن کی فصل بڑے ہی مضبوط اور توانا انداز سے پک چکی ہے۔ اگر اس فصل کو نہ کاٹا گیا تو اسکے تعفن اور سرانڈ سے معاشرہ تہہ و بالا ہو جائے گا۔ دنیا بھر میں اس مالی نظام حرام کی وجہ سے ہمیں نگاہ کم سے دیکھا جاتا ہے۔ اس جنس کی مانگ اس طرح بڑھی ہے کہ ہاتھ اسکی طرف بڑھ رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس کو موقع نہیں ملا وہی پاک گرداناجا رہا ہے۔ مجھے کئی دہائیوں سے یورپ‘ برطانیہ‘ امریکہ اور کینیڈا جانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن جتنے اس رواں دہائی میں اپنے ملک بارے پریشان اور تشویش میں نظر آئے اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آئے۔ تارکین وطن کا بجا سوال ہے کہ ہم اپنی محنت سے سرمایہ وطن بھیجتے ہیں جبکہ ملک میں حرام کمانے والے ملکی دولت سے یہاں لاتعداد جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ملک سے باہر جانیوالے افراد میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ جہاں بھی پاکستانی سے ملاقات ہوئی ہے وہاں پر پاکستانی سیاستدانوں کی خفیہ جائیدادوں اور اثاثوں کی ہوش ربا کہانیاں سامنے آتی ہیں۔یہاں تک کہ دبئی میں آپ کو ٹیکسی ڈرائیور ہمارے سیاسی رہنماؤں سے منسوب اثاثے سفر کے دوران بتانا اور دکھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ تارکین وطن انتہائی پریشان‘ رنجیدہ اور مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ کئی افراد نے تو مجھ سے یہاں تک بھی کہا کہ دوسری اقوام کے افراد سے گفتگو کرتے ہوئے جب ہمارے ملک کا حال تباہی کا ذکر ہوتا ہے تو کرپشن کی وجہ سے ہمارے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔ بیان کردہ کہانیوں کے آگے پا نامہ ایک معمولی فسانہ لگتا ہے اور پانامہ میں ظاہر شدہ اثاثے تو اصل کے سود سے بھی کم کم ہیں۔ میں نے لندن سے لیکرٹورنٹوں تک پاکستانی سیاستدانوں کے اللے تللے اور راجہ اندر جیسی حرکتوں کی کہانیاں سنی ہیں اور اس میں ایسے نام بھی ہیں جو کہ سیاست کے دریا میں ڈبکی لگانے سے پہلے ہوائی جہاز پر بھی سفر کرنے کی سکت سے محروم تھے اور اب ان کے ناموں سے منسوب جائیدادوں کا سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہاں سوال بھی اٹھتا ہے کہ ان کہانیوں میں جھوٹ کی آمیزش بھی کر دی گئی ہو گی لیکن اتنی زیادہ مبالغہ آمیزی ناممکن ہے۔ سیاستدانوں کا طرز معاشرت بھی سوالیہ نشان بنتا ہے۔ ہمارے پاکستانی سیاستدانوں نے دبئی‘ لندن‘ سوئٹزرلینڈ اور نیویارک وغیرہ کو اپنے شہر کا کوئی محلہ سمجھ رکھا ہے۔ پلک جھپکتے ہی اڑان بھری اور سمندر پار چلے گئے جتنا یہ لوگ سمندر پار جاتے ہیں‘ غریب پاکستانی اپنے شہر میں بھی شرقاً غرباً اتنا سفر کرنے کے قابل نہیں ہے۔
افسوس ایٹمی طاقت کے مقتدر طبقہ کی جیبوں میں اقامے پڑے ہوئے ہیں۔ اقامہ صرف رہائشی مقاصد نہیں بلکہ مال و دولت کی چھپی غاروں کی نشاندہی کرتا ہے۔ صرف رہائش اور سفر کیلئے اقامہ کا بہانہ ناقابل قبول اور ملکی وقار کی دھجیاں بکھیرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ بیرون ملک اثاثوں اور مال و دولت کی اصل حقیقت کیوں اور کیسے دریافت کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں سچ سامنے لانے کیلئے ہمارے سفارت خانوں میں خصوصی شعبہ قائم کیا جائے جو کہ ایماندار لوگوں پر مشتمل ہو۔ یہ لوگ پاکستانی تارکین وطن کی نشاندہی پر اپنا کام مکمل کر سکتے ہیں‘ پاکستانی محب وطن ہیں وہ بہت کچھ جانتے ہیں۔ ملکی وقار اور عزت کیلئے وہاں رہنے والے پاکستانی ہر ممکن مدد کرکے خفیہ جائیدادوں کا کھوج لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ویسے سفارتخانہ کے ذمہ داران بھی بہت کچھ سے واقف ہونگے۔
بددیانتی حکم امروز بن چکا ہے‘ ایسے سرکاری عمال پٹواری سے لیکر بڑے افسران تک جن کی دوسری تیسری نسل بغیر کسی کام اور ہنر کے مالا مال ہے اور ہمارے گلی محلے ایسے افراد سے بھرے پڑے ہیں۔ ایک منضبط نظام سے ایسے افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جا سکتا ہے تاکہ کسی بھی گزری نسل کا کمایا مال حرام ریاست کے کام آئے۔ یہ بھی امر واقعہ ہے کہ بعض جمہوری ممالک کے سابقہ سربراہان سے زیادہ اثاثے اور کروفر کی زندگی ہمارے گرد و پیش میں رہنے والے ریٹائرڈ پٹواری اور تھانیدار کی ہے اور نسل در نسل سیاستدان کی شاہانہ زندگی تو مغل بادشاہوں سے بھی زیادہ اعلیٰ و ارفع ہے۔ ہمارے کرپشن روک ادارے کارکردگی سے محروم کر دئے گئے ہیں۔ نیب صرف اب متحرک نظر آرہا ہے اس سے قبل نیب کے سابق چیئرمین کے انصاف کش اقدامات پر اعلیٰ عدلیہ بھی کچھ نہ کر سکی۔ اس نظام کو بارآور کرنے کیلئے بنائی گئی مافیا کی حدود و قیود کو نیست و نابود کرنا ہو گا۔ یہ تاثر زبان زدِ عام ہے کہ پاکستان میں بڑے آدمی کو کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ قانون اسکے آگے بے بس ہو جاتا ہے۔ یہاں اگر کوئی بڑا آدمی شکنجے میں آتا ہے تو وہ صرف اﷲ کی پکڑ ہوتی ہے۔
اداروں میں سیاسی مداخلت‘ نااہل اور بددیانت افراد کے براجمان ہونے سے یہ بیماری ناسور بن چکی ہے۔ حرام سے حاصل کردہ مال معاشرہ میں فساد کی جڑ بن چکا ہے۔ اﷲ کی زمین پر فساد مسلط کرنے والے افراد کی توندیں مالِ حرام کی کمین گاہیں ہیں اور اسی مالِ حرام کے بل پر نو دولتیے اور ان کے متعلقین زمین پر ہمہ قسم فساد پھیلانے کے مرتکب ہو کر معاشرہ کو تلپٹ کر رہے ہیں۔ شرافت ناپید ہونے کے قریب ہے۔ اب بھی اگر اس ظلم و ستم کے آگے حقیقی بند نہ باندھا گیا تو سب کچھ بہہ جائے گا۔ بظاہر ہر سیاسی جماعت اور مکتبہ فکر کرپشن کے خلاف واویلا کناں ہے ملک کی پارلیمنٹ تمام حالات کے پیش نظر اس عفریت سے چھٹکارا کیلئے معتبر‘ مستحکم مقدمات بنانے اور نمٹانے کیلئے فوری قانون سازی کرے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ سب سے پہلے یہی لوگ قابل گرفت بنیں گے۔ نیب کی معمولی ہلچل بھی برداشت نہیں ہو رہی اور کسی حد تک متحرک نیب کا قصہ تمام کرنے کی آوازیں مقتدر افراد کی طرف سے آرہی ہیں۔ نکلتی چیخیں اس امر کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ اندرون خانہ بہت کچھ ہے۔ کل تک نیب کو اپنے مطلب کیلئے استعمال کرنے والے آج نوحہ کناں ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ جہاں پر عام انسان کو معاشرہ میں آسودگی دینے کی بجائے مخصوص افراد کی آسودگی اور عیاشی کا سامان اور اسباب بنائے اور لٹائے جائیں تو پھر یقیناً قانون قدرت ہی کی گرفت اپنا کام دکھاتی ہے۔ اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید قدرت اس پاک دھرتی کو معاشی دہشت گردوں سے نجات کا وسیلہ ضرور پیدا کرے گی اور صرف اﷲ ہی مسبب الاسباب ہے۔ یاد رہے کہ زر و دولت کے حرام خزانے غریب عوام کا خون ہیں اور کبھی کوئی حکمران زر و دولت کے انبار اپنے ساتھ قبر میں لیکر نہیں گیا اور زمانہ گواہ ہے کہ بڑے بڑے جابر حکمران کے مرنے کے بعد ان کی دولت بھی دیر یا بدیر بکھر گئی اور آج وہ تاریخ میں نفرت کا نشان گنے جاتے ہیں۔
مچی ہے لوٹ ہر سو‘ دیکھو عجب راج ہے
دیکھا فلک نے چور اچکوں کا باہم امتزاج ہے